میر تقی میرؔ جب دلی سے چلے تو سیدھے لکھنؤ آئے۔جیسا مسافروں کا دستور ہے ایک سرائے میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں ایک جگہ مشاعرہ ہے۔رہ نہ سکے اور سماع کی غرض سے مشاعرے میں جاشامل ہوئے۔ان کی وضع قدیمانہ ،کھڑکی دار پگڑی ،پچاس گز کے گھیر کا پاجامہ،ایک پورا تھان پستولیے کا کمر سے بندھا، ایک رومال پٹڑی دار تہہ کیا ہوا اس میں آویزاں، مشروع کا پائجامہ ،جس کے عرض کے پائنچے، ناک پھٹی کی انی دار جوتی ، جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی ناک،کمر میں ایک طرف سیف، یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار ہاتھ میں جریب، غرض جب شریک محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنؤ ، نئے انداز، نئی تراش کے بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انہیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔
میر صاحب بیچارے غریب الوطن زمانے کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ تھے اور بھی دلتنگ ہوئےاور ایک طرف خاموش بیٹھ رہے، مشاعرے کے دوران کسی نے شرارت کی غرض سے شمع ان کے سامنے بھی رکھ دی، صدر مشاعرہ نے پوچھا ، حضور کا وطن کہاں ہے؟ میر صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ کر غزل طرحی میں داخل کیا۔
کیا بودوباش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے، ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کر ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
سب کو معلو م ہوا، بہت معذرت کی، اور میر صاحب سے عفو تقصیر چاہی۔صبح ہوتے ہوتے شہر میں مشہور ہوگیا کہ میر تقی میر صاحب تشریف لائے ہیں۔رفتہ رفتہ نواب آصف الدولہ مرحوم نے سنا۔ اور دوسو روپیہ مہینہ مقرر کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواب اشرف علیخان فغاںؔ ، بذلہ سنجی ولطیفہ گوئی میں یکتائے زمانہ تھے۔ایک دن راجہ صاحب کے دربار میں غزل پڑھی، جس کا قافیہ تھا ، لالیاں۔جالیاں۔سب سخن فہموں نے بہت تعریف کی ۔راجہ صاحب کی خدمت میں جگنو میاں ایک مسخرے تھے، ان کی زبان سے نکلا کہ قبلہ سب قافیے آپ نے باندھ ڈالے، مگر ؔتالیاں" رہ گئیں۔
نواب اشرف علی خان نے ٹال دیا اور کچھ جواب نہ دیا۔راجہ صاحب نے خود فرمایا کہ نواب سنتے ہو، جگنو میاں کیا کہتے ہیں؟۔ انہوں نے کہا کہ مہاراج اس قافیہ کو مبتذل سمجھ کر چھوڑ دیا تھا، حضور فرمائیں تو اب بھی ہو سکتا ہے۔ مہاراج نے کہا، ہاں کچھ تو کہنا چاہیئے۔
انہوں نے اسی وقت فی البدیہہ یہ شعر پڑھا۔
جگنو میاں کی دم جو چمکتی ہے رات کو
سب دیکھ دیکھ اس کو بجاتے ہیں تالیاں
تمام دربار چمک اوٹھا اور جگنو میاں مدھم ہوکر رہ گئے۔
Monday, June 13, 2016
فی البدیہ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment