Monday, June 27, 2016

رباعیات اکبر الہ آبادی

اکبر الٰہ آبادی

بے سود ہے گنج و مال و دولت کی تلاش
ذلّت ہے دراصل جاہ و شوکت کی تلاش
اکبر تو سرورِ طبع کو علم میں ڈھونڈ
محنت میں کر سکون و راحت کی تلاش

غفلت کی ہنسی سے آہ بھرنا اچھّا
افعالِ مضر سے کچھ نہ کرنا اچھّا
اکبر نے سنا ہے اہلِ غیرت سے یہی
جینا ذلّت سے ہو تو مرنا اچھّا

اونچا نیت کا اپنی زینہ رکھنا
احباب سے صاف اپنا سینہ رکھنا
غصّہ آنا تو نیچرل ہے اکبر
لیکن ہے شدید عیب کینہ رکھنا

Wednesday, June 22, 2016

ہلال عید

کہتے ہیں کہ ایک بار شہنشاہ جہانگیر اپنی ملکہ نورجہاں کے ساتھ عید کا چاند دیکھ رہا تھا، چاند نظر آیا تو جہانگیر نے کہا
ہلالِ عید بر اوجِ فلک ہویدا شد
عید کا چاند آسمان کی بلندیوں میں ظاہر ہوا۔ یہ سُن کر نورجہاں نے فی الفور گرہ لگائی
کلیدِ مے کدہ گم گشتہ بود، پیدا شد
مے کدے کی جو کنجی (ماہِ رمضان میں) گم ہو گئی تھی، وہ مل گئی

عید مبارک

جانے کیوں آپ کے رخسار مہک اٹھتے ہیں

جب کبھی کان میں چپکے سے کہا، "عید کا چاند"

لے کے حالات کے صحراؤں میں آ جاتا ہے

آج بھی خلد کی رنگین فضا، عید کا چاند

تلخیاں بڑھ گئیں جب زیست کے پیمانے میں

گھول کر درد کے ماروں نے پیا عید کا چاند

---------------------------

آو مل کر مانگیں دعائیں ہم عید کے دن

باقی رہے نہ کوئی بھی غم عید کے دن

ہر آنگن میں خوشیوں بھرا سورج اُترے

اور چمکتا رہے ہر آنگن عید کے دن

---------------------------

عید کی ہربہار دیکھو تم

عیش لیل ونہار دیکھو تم

ایک اس عید پرہے کیا موقوف؟

ایسی عیدیں ہزار دیکھو تم

---------------------------

عید تکمیلِ عنایت عید تقریبِ سعید

عید روزوں کا تتمہ عید بخشش کی نوید

جس گھڑی دوخ پکارے ہل من مزید

عید ِ مو من رو ز ِ محشر رب کی دید

---------------------------

جن کو مطلوب خدا ہے وہی ان کا دلبر

دن کو روزے سے رہے رات کو جاگے اکثر

کیوں منائیں نہ خوشی ،عید یہاں اور وہاں

اجر مولٰی دے جنہیں پاس سے جھولی بھر کر

دن میں محنت جوکریں ذکر میں کا ٹیں راتیں

جن کو مرغوب عمل ہیں نہیں حیلے باتیں

ان کی مبرور عبادت، ہی صلہ ہے ان کا

ہیں مقرب ِ الٰہی یہ مقدس ذاتیں

---------------------------

نعمتیں مخصوص ہیں سب متقی کے واسطے

زندگی اک اور بھی ہے آدمی کے واسطے

ہو گیا گر حق شنا سا کو ئی جو رمضا ن میں

عید لکھی ہے خدا نے بس اسی کے واسطے

---------------------------

کہہ دیں وہ محبت سے اگر عید مبارک

مل جائے مرادوں کا ثمر عید مبارک

اے کاش ہمیں عید ہو ایسی کوئی حاصل

کہتے رہیں ہم شام و سحر عید مبارک

ہو جائیں سبھی شکوے گلے دور دلوں سے

وہ کہہ دیں گلے مل کے اگر عید مبارک

جب آپ ہمیں اپنا سمجھتے ہیں تو کہیئے

ہنستے ہوئے بے خوف و خطر عید مبارک

---------------------------

ہر کسی کو خدا نصیب کرے

آپ سا اِک حبیب عید کے دِن

آئینہ سال بھر رہا ہمزاد

پر لگا کچھ عجیب عید کے دِن

قہقہے بانٹتا ہے لوگوں میں 

خوبصورت خطیب عید کے دِن 

دُنیا والو! خدارا لے آؤ 


دِل کو دِل کے قریب عید کے دن

چپکےسے چاند کی روشنی چھو جائے آپ کو

دھیرے سے یہ ہوا کچھ کہہ جائے آپ کو

دل سے جو چاہتےہومانگ لوخدا سے

ہم دعا کرتے ہیں مل جائے وہ آپ کو

---------------------------

عنبر کہے خوشبو سے اَذاں ، عید مبارَک

عید آ گئی اے جانِ جہاں ، عید مبارَک

یاقوت لبوں پر ترے قربان شگوفے

چندا ترے ہنسنے کا نشاں ، عید مبارَک

دیدار جنہیں تیرا ملے اُن کو بھی تبریک

جو تجھ کو جہاں دیکھے ، وَہاں عید مبارَک

ملنے کو تجھے صف میں کھڑے ہوں سرِ دَربار

ملکائیں ، شہنشاہِ زَماں ، عید مبارَک

بوسوں کی ترے رُخ کے ملے تتلی کو عیدی

ہر سمت ہو خوشیوں کا سماں ، عید مبارَک

اَللہ مری ساری خوشی بھیج دے تجھ کو

غم بھیجے ترے سارے یہاں ، عید مبارَک

راتیں تری تاباں رہیں ، دِن نورِ دَرخشاں

خوشبو ہو تری اور جواں ، عید مبارَک

کشمش ہو دَہَن میں تو لب اَنگور کو چومیں

منہ میٹھا ہو ، نمکین زَباں ، عید مبارَک

ہر پل ترا عشرت کدے میں شان سے گزرے

غنچوں سا ہنسے ، غنچہ دَہاں ، عید مبارَک

وُہ جوڑیں گے ہر شعر کے کب پہلے حرف کو!

کر دیتے ہیں قیس اِن میں نہاں عید مبارَک

Friday, June 17, 2016

اکبر الہ آبادی اور پردہ

جس زمانے میں اکبر نے آزادی نسواں اور بے پردگی کے خلاف جہاد شروع کیا، ترقی پسند خواتین اور اسی قسم کے مردوں نے ان پر بوچھاڑ شروع کر دی۔ لاہور کا " تہذیب نسواں " ان سب میں پیش پیش تھا۔ اکبر کے خلاف بہت سے مضامین شائع کیے گئے، اور "آصف جہاں بیگم" نے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ آنے والا طوفان اب کسے کے روکے نہیں رک سکتا۔ اکبر خود بھی اسے تسلیم کرتے تھے اور جانتے تھے کہ ہوا کا رخ کس طرف ہو رہا ہے۔ پھر بھی ان دھمکیوں سے مرعوب ہونے کو تیا نہ تھے۔ کہا ہے :

اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کے فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیگم کی نوج سے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاتبوں کی " غلط نوازیوں " بے بہت دل برداشتہ خاطر رہتے تھے۔ مولانا ظفر الملک علوی ایڈیٹر ماہنامہ " الناظر" کو ایک خط (مطبوعہ الناظر، یکم جنوری 1910ع) میں تحریر فرماتے ہیں :

اپنے مسودے خود نہیں پڑھ سکتا۔ کاتب کو ہدایت میں نہایت دقت ہوتی ہے۔ کاتب صاحب ایسے " ذی استعداد " ہیں کہ کونسلوں میں سیٹ کو " گھونسلوں میں بیٹ " لکھ دیتے ہیں۔"

پھر اسی خط میں پردہ کی بحث چھیڑتے ہوئے لکھا ہے :

" تعلیم نسواں کا مخالف میں کیوں کر ہو سکتا ہوں۔ بغیر تعلیم کے " معشوقانہ انداز" ممکن نہیں۔ میں تو شاعر آدمی ہوں، اس قدر تعلیم چاہتا ہوں کہ شعر کا سلیقہ پیدا ہو جائے۔ " سبز پری " اگر ایسا مطع نہ کہہ سکتی :

معمور ہوں شوخی سے شرارت سے بھری ہوں
دہانی میری پوشاک ہے میں سبز پری ہوں

تو " گلفام " کی کیا کم بختی تھی کہ اس پر مرتا اور راجہ مندر کی سختیاں اٹھاتا۔

Monday, June 13, 2016

فی البدیہ

میر تقی میرؔ جب دلی سے چلے تو سیدھے لکھنؤ آئے۔جیسا مسافروں کا دستور ہے ایک سرائے میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں ایک جگہ مشاعرہ ہے۔رہ نہ سکے اور سماع کی غرض سے مشاعرے میں جاشامل ہوئے۔ان کی وضع قدیمانہ ،کھڑکی دار پگڑی ،پچاس گز کے گھیر کا پاجامہ،ایک پورا تھان پستولیے کا کمر سے بندھا، ایک رومال پٹڑی دار تہہ کیا ہوا اس میں آویزاں، مشروع کا پائجامہ ،جس کے عرض کے پائنچے، ناک پھٹی کی انی دار جوتی ، جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی ناک،کمر میں ایک طرف سیف، یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار ہاتھ میں جریب، غرض جب شریک محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنؤ ، نئے انداز، نئی تراش کے بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انہیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔
میر صاحب بیچارے غریب الوطن زمانے کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ تھے اور بھی دلتنگ ہوئےاور ایک طرف خاموش بیٹھ رہے، مشاعرے کے دوران کسی نے شرارت کی غرض سے شمع ان کے سامنے بھی رکھ دی، صدر مشاعرہ نے پوچھا ، حضور کا وطن کہاں ہے؟ میر صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ کر غزل طرحی میں داخل کیا۔
کیا بودوباش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے، ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کر ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
سب کو معلو م ہوا، بہت معذرت کی، اور میر صاحب سے عفو تقصیر چاہی۔صبح ہوتے ہوتے شہر میں مشہور ہوگیا کہ میر تقی میر صاحب تشریف لائے ہیں۔رفتہ رفتہ نواب آصف الدولہ مرحوم نے سنا۔ اور دوسو روپیہ مہینہ مقرر کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواب اشرف علیخان فغاںؔ ، بذلہ سنجی ولطیفہ گوئی میں یکتائے زمانہ تھے۔ایک دن راجہ صاحب کے دربار میں غزل پڑھی، جس کا قافیہ تھا ، لالیاں۔جالیاں۔سب سخن فہموں نے بہت تعریف کی ۔راجہ صاحب کی خدمت میں جگنو میاں ایک مسخرے تھے، ان کی زبان سے نکلا کہ قبلہ سب قافیے آپ نے باندھ ڈالے، مگر ؔتالیاں" رہ گئیں۔
نواب اشرف علی خان نے ٹال دیا اور کچھ جواب نہ دیا۔راجہ صاحب نے خود فرمایا کہ نواب سنتے ہو، جگنو میاں کیا کہتے ہیں؟۔ انہوں نے کہا کہ مہاراج اس قافیہ کو مبتذل سمجھ کر چھوڑ دیا تھا، حضور فرمائیں تو اب بھی ہو سکتا ہے۔ مہاراج نے کہا، ہاں کچھ تو کہنا چاہیئے۔
انہوں نے اسی وقت فی البدیہہ یہ شعر پڑھا۔
جگنو میاں کی دم جو چمکتی ہے رات کو
سب دیکھ دیکھ اس کو بجاتے ہیں تالیاں
تمام دربار چمک اوٹھا اور جگنو میاں مدھم ہوکر رہ گئے۔

Friday, June 10, 2016

اقبال کا شاہین

اقبال کی شاعری میں جن تصورات نے علامتوں کا لباس اختیار کیا ہے ان میں شاہین کا تصور ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ 

اقبال نے اپنی شاعری میں شاہین کو ایک خاص علامت کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ اور ان کا محبوب پرندہ ہے۔ اقبال کے ہاں اس کی وہی اہمیت ہے جو کیٹس کے لئے بلبل اور شیلے کے لئے سکائی لارک کی تھی، بلکہ ایک لحاظ سے شاہین کی حیثیت ان سے زیادہ بلند ہے کیونکہ شاہین میں بعض ایسی صفات جمع ہوگئی ہیں۔ جو اقبال کی بنیادی تعلیمات سے ہم آہنگ ہیں یوں تو اقبال کے کلام میں جگنو، پروانہ، طاوس، بلبل، کبوتر، ہرن وغیرہ کا ذکر آیا ہے۔ لیکن ان سب پر شاہین کو وہ ترجیح دیتے ہیں۔ اقبال نے تشبیہات و استعارات میں بلبل و قمری کے بجائے باز اور شاہین کو ترجیح دی ہے۔ ڈاکٹر یوسف خان لکھتے ہیں کہ،
” اقبال کے وجدان اور جذبات شعری کو جو چیز سب سے زیادہ متحرک کرتی ہے۔ وہ مظہر ”قوت“ ہے یہی وجہ ہے کہ وہ بلبل اور قمری کی تشبیہوں کی بجائے باز اور شاہین کو ترجیح دیتا ہے۔“
اقبال کے ہاں شاہین مسلمان نوجوان کی علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اقبال کو جمال سے زیادہ جلال پسند ہے اقبال کو ایسے پرندوں سے کوئی دلچسپی نہیں جن کی اہمیت صرف جمالیاتی ہے یا جو حرکت کے بجائے سکون کے پیامبر ہیں،

کر بلبل و طاوس کی تقلید سے توبہ 

بلبل فقط آواز ہے، طاوس فقط رنگ

اقبال کو شاہین کی علامت کیوں پسند ہے اس سلسلے میں خود ہی ظفر احمد صدیقی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں۔
” شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خوصیات پائی جاتی ہیں۔ خود دار اور غیرت مند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہو شکار نہیں کھاتا ۔ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ بلند پرواز ہے۔ خلوت نشین ہے۔ تیز نگاہ ہے۔

اقبال کے نزدیک یہی صفات مردِ مومن کی بھی ہیں وہ نوجوانوں میں بھی یہی صفات دیکھنا چاہتا ہے۔ شاہین کے علاوہ کوئی اور پرندہ ایسا نہیں جو نوجوانوں کے لئے قابل تقلید نمونہ بن سکے اُردو کے کسی شاعر نے شاہین کو اس پہلو سے نہیں دیکھا” بال جبریل“ کی نظم ”شاہین“میں اقبال نے شاہین کو یوں پیش کیا ہے۔

شاہین

کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا

جہاں رزق کا نام ھے آب و دانہ

بیاباں کی خلوت خوش آتی ھے مجھ کو

ازل سے ھے فطرت میری راہبانہ

نہ باد بہاری، نہ گل چیں ، نہ بلبل

نہ بیماریء نغمہ ء عاشقانہ

خیابانیوں سے ھے پرہیز لازم

ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ

ہواءے بیاباں سے ہوتی ھے کاری

جوانمرد کی ضربت غازیانہ

حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں

کہ ہے زندگی باز کی زاھدانہ

جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا

لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

یہ پورب، یہ پچھم، چکوروں کی دنیا

مرا نیلگوں آسماں بیکرانہ

پرندوں کی دنیا کا درویش ھوں میں

کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ

اقبال نے شاہین میں پانچ صفات ملاحظہ کیں ہیں، انہوں نے مسلم نوجوانوں میں بھی ان پانچ خصوصیات کو پیدا کرنے کی تلقین کی ہے۔

1۔ بلند پرواز

2۔ تیز نگاہ

3۔ خلوت پسند

4۔ آشیانہ نہیں بناتا

5۔ دوسرے کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا

Tuesday, June 7, 2016

مغفرت کی خنک ہوائیں ہیں

مغفرت کی خنک ہوائیں ہیں
رات ہے شبنمی فضائیں ہیں

چاندنی آسماں سے لائی ہے
ہم نفس سن یہ کیا صدائیں ہیں

آنکھ کی جھیل میں ستارے ہیں 
دل میں یادوں کی کہکشائیں ہیں 

یہ سرہانے رکھی ہوئی میرے 
کچھ دعائیں ہیں التجائیں ہیں 

شرمساری لکھی ہے چہرے پر 
میں نے پہنی ہوئی خطائیں ہیں

اے رحیم و غفور اے شاہد 
بے حساب آپ کی عطائیں ہیں