Sunday, February 21, 2016

سات عورتوں سے شادی مت کرنا

ایک عرب دانا نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی کہ 7 قسم کی عورتوں سے کبھی شادی نہ کرنا، خواہ وہ حسن و جمال اور مال و دولت میں بے مثال ہی کیوں نہ ہوں

انانہ ، منانہ، كنانہ، حنانہ، حداقہ، براقہ اور شداقہ

1) انانہ - وہ عورت جو ہر وقت سر پر پٹی باندھے رکھے، کیوں کہ شکوہ و شکایت ہی ہمیشہ اس کا معمول ہو گاـ

2) منانہ - وہ عورت جو ہر وقت مرد پر احسان ہی جتاتی رہے کہ میں نے تیرے ساتھ یہ یہ احسان کیا اور تجھ سے تو مجھے کچھ حاصل نہیں ہوا

3) کنانہ - وہ عورت جو ہمیشہ ماضی کو یاد کرے فلاں وقت میں میرے پاس یہ تھا وہ تھا

4) حنانہ - وہ عورت جو ہر وقت اپنے سابقہ خاوند کو ہی یاد کرتی رہے اور کہے کہ وہ تو بڑا اچھا تھا مگر تم ویسے نہیں ہو

5) حداقہ - وہ عورت جو خاوند سے ہر وقت فرمائش ہی کرتی رہے، جو چیز بھی دیکھے اس کی طلبگار ہو جائے

6) براقہ - وہ عورت جو ہر وقت اپنی چمک دمک میں ہی لگی رہے

7) شداقہ - وہ عورت جو تیز زبان ہو اور ہر وقت باتیں بنانا ہی اس کا کام
����������

Friday, February 19, 2016

આવી છે દુનિયા

આવી છે દુનિયા?

બધુ જ સારું હોય છે જ્યાં સુધી તમારો સિતારો ઝળહળે છે,
એક વાર પનોતી બેસે પછી આખું આકાશ માથા પર પડે છે.

સારું હોય ત્યારે અજાણ્યા લોકો પણ પાછળ પાછળ ફરે છે,
એક વાર નિષ્ફળતા મળે પછી સગાઓ પણ ઉચાળા ભરે છે.

સિતારો બુલંદ હોય ત્યારે બધા બહુ નમ્ર થઈને મળે છે,
પગ ધરતી પર આવી જાય પછી એ બધા આંખોથી કરડે છે.

સમય હોય સારો ત્યારે તો સિંહ પણ તમારાથી ડરે છે,
જો નીચે પછડાયા તો પછી ગલીનું  કૂતરુંય દાદાગીરી કરે છે.

તમારા સુવર્ણ કાળમાં કેટલાય માણસો તમારા પર મરે છે ,
અને નસીબ ખરાબ હોય ત્યારે લોકો તમારા માથા પર ચડે છે.

સુખના દિવસોમાં તમારો સમય બહુ ઝડપથી સરે છે,
દુખના દિવસો જલ્દી પતે એ માટે તમારું મન રીતસર કરગરે છે..

    વાહ રે દૂનીયા વાહ
〰〰〰〰〰〰〰〰

Thursday, February 18, 2016

مرا پیمبر عظیم تر ہے

مرا پیمبر عظیم تر ہے
کمالِ اخلاق ذات اُس کی
جمالِ ہستی حیات اُس کی
بشر نہیں عظمتِ بشر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

وہ شرحِ احکام حق تعالیٰ
وہ خود ہی قانون، خود حوالہ
وہ خود ہی قرآن، خود ہی قاری
وہ آپ مہتاب، آپ ہالہ
وہ عکس بھی اور آئینہ بھی
وہ نقطہ بھی، خط بھی، دائرہ بھی
وہ خود نظارہ ہے، خود نظر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

شعور لایا، کتاب لایا
وہ حشر تک کا نصاب لایا
دیا بھی کامل نظام اس نے
اور آپ ہی انقلاب لایا
وہ علم کی اور عمل کی حد بھی
ازل بھی اس کا ہے اور ابد بھی
وہ ہر زمانے کا راہبر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

وہ آدم و نوح سے زیادہ
بلند ہمت، بلند ارادہ
وہ زُہدِ عیسیٰ سے کوسوں آ گے
جو سب کی منزل وہ اس کا جادہ
ہر اک پیمبر نہاں ہے اس میں
ہجومِ پیغمبراں ہے اس میں
وہ جس طرف ہے، خدا ادھر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

بس ایک مشکیزہ اک چٹائی
ذرا سی جَو،  ایک چارپائی
بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے
نہ خوش لباسی، نہ خوش قبائی
یہی ہے کُل کائنات جس کی
گنی نہ جائيں صفات جس کی
وہی تو سلطانِ بحرو بر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

جو اپنا دامن لہو میں بھر لے
مصیبتیں اپنی جان پر لے
جو تیغ زن سے لڑے نہتا
جو غالب آ کر بھی صلح کر لے
اسیر دشمن کی چاہ میں بھی
مخالفوں کی نگاہ میں بھی
امیں ہے، صادق ہے، معتبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

جسے شاہِ شش جہات دیکھوں
اُسے غریبوں کے ساتھ دیکھوں
عنانِ کون و مکاں جو تھامے
خدائی پر بھی وہ ہاتھ دیکھوں
لگے جو مزدور شاہ ایسا
نذر نہ دَھن سربراہ ایسا
فلک نشیں کا زمیں پہ گھر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

وہ خلوتوں میں بھی صف بہ صف بھی
وہ اِس طرف بھی وہ اُس طرف بھی
محاذ و منبر ٹھکانے اس کے
وہ سربسجدہ بھی، سربکف بھی
کہیں وہ موتی، کہیں ستارہ
وہ جامعیت کا استعارہ
وہ صبحِ تہذیب کا گجر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

صلی اللہ علیہ والہ وسلم

Wednesday, February 17, 2016

શેર અને વેર

કોઈક શેર તો કોઈક સવા શેર છે,
દુનિયામાં દરરોજ નવા – નવા ખેલ
છે,
કેવો ખતરનાક આવ્યો છે જમાનો?
દુશ્મન સાથે દોસ્તી અને અંગત સાથે
વેર છે.

Tuesday, February 16, 2016

خسرو کے دو سخنے

دو سخنے


(۱)
راجہ پیاسا کیوں؟ گدھا اداس کیوںِ ؟ 
لوٹا نہیں تھا 
(۲)انار کیوں نہ چکھا وزیر کیوں نہ رکھا
دانا نہ تھا
(۳)
دہی کیوں نہ جما ، نوکر کیوں نہ رکھا
ضامن نہ تھا
(۴)
سموسہ کیوں نہ کھایا ، جوتا کیوں نہ پہنا
تلا نہ تھا
(۵)
ستار کیوں نہ بججا ، عورت کیوں نہ نہائی
پردہ نہ تھا
(۶)
گھر کیوں اندھیارا ، فقیر کیوں بڑبڑایا
دیا نہ تھا
(۷)
گوشت کیون نہ کھایا ، ڈوم کیون نہ گایا
گلا نہ تھا
(۸)
پنڈت کیوں نہ نہایا دھوبن کیوں ماری گئ
دھوتی نہ تھی
(۹)
کھچڑی کیوں نہ پکائی ، کبوتری کیوں نہ اڑائی
چھڑی نہ تھی

أبيــات لا مثيــل لهــا

أبيــات لا مثيــل لهــا

أبيات كل حروفها بدون تنقيط:

الحمد لله الصمد حال السرور والكمد 
الله لا اله إلا الله مــولاك الأحد 
أول كل أول اصل الأصول و العمد 
الحول والطول له لا درع إلا ما سرد
............................

الوم صديقي وهذا محال 
صديقي أحبه كلام يقال
وهذا كلام بليغ الجمال
محال يقال الجمال خيال

الغريب أنك تستطيع قراءته أفقيا ورأسياً!
...............................

أما هذا البيت فيقرأ من الجهتين، دون اعتبار لتشكيل الحروف .

يقول القاضي الأرجاني .:
 مودته تدوم لكل هول .
و هل كل مودته تدوم
.............................
بيت لا تتحرك بقراءته الشفتان:
 قطعنا على قطع القطا قطع ليلة
سراعا على الخيل العتاق اللاحقي
............................
أبيات في المدح والثناء ولكن إذا قرأتها بالمقلوب كلمة كلمة، فإن النتيجة ستكون أبيات هجائية موزونة ومقفاه، ومحكمة أيضاً.

حلموا فما ساءت لهم شيم ..
سمحوا فما شحت لهم منن 
سلموا فلا زلت لهم قدم .. 
رشدوا فلا ضلت لهم سنن

سوف تكون الأبيات بعد قلبها كالتالي..

منن لهم شحت فما سمحوا .. 
شيم لهم ساءت فما حلموا 
سنن لهم ضلت فلا رشدوا .. 
قدم لهم زلت فلا سلموا

...............................
قصيدة شعرية عجيبة ، نظمها إسماعيل بن أبي بكر المقري ـ رحمه الله ـ والعجيب فيها أنك عندما تقرأها من اليمين إلى اليسار تكون مدحا ، وعندما تقرأها من اليسار إلى اليمين تكون ذما .
وإليكم بعضا من هذه القصيدة :

من اليمين إلى اليسار .. ( في المدح ) :
طلبوا الذي نالوا فما حُرمــــوا .. رُفعتْ فما حُطتْ لهـــم رُتبُ
وهَبوا ومـا تمّتْ لــهم خُلــــــقُ .. سلموا فما أودى بهـــم عطَبُ
جلبوا الذي نرضى فما كَسَدوا .. حُمدتْ لهم شيمُ فــمـــا كَسَبوا

من اليسار إلى اليمين .. ( في الذم ) :
رُتب لهم حُطتْ فمــــا رُفعتْ .. حُرموا فما نالوا الـــــذي طلبُوا
عَطَب بهم أودى فمــــا سلموا .. خُلقٌ لهم تمّتْ ومـــــــــا وهبُوا
كَسَبوا فما شيمٌ لــــهم حُمــدتْ .. كَسَدوا فما نرضى الذي جَلبُوا

જન્નતના પંથ

કબરની સંકડામણ જોઈને સમજી લો,

કે જન્નતમાં જવાના પંથ કંઈ પહોળા નથી હોતા....

Sunday, February 7, 2016

محبت کو دل میں بسانا پڑے گا

َتخیُّل تلّفظ میں لانا پڑے گا
کوئ نغمہ پھر گنگنانا پڑے گا

تغافل ، تَجاہُل ، تساہُل ، تامُّل !
ہر اِک ناز اُن کا اُٹھانا پڑے گا

تفاخرُ ، تکبّر ، تنا فسُ ، تعصّب !
یہ ناسُور ھیں، جاں سے جانا پڑےگا

صداقت،عدالت،سخاوت،شجاعت
ُنقوش ِ خلافت پہ آنا پڑے گا

مُحبّت ، مُرَوّت ، مَؤدّتّ، ُاخوّت !
یہ آئیں تو ُظلمت کوجانا پڑے گا

وہ تلقین ِ آخِر 'نماز اور اَخلاق '
ہے فرمانِ نبوی ، نبھانا پڑے گا

تصَدُّق ہوَ حق پرَ ،اور اُمّت کی وحدت!
َمِزاج ِ شہیداں پہ آنا پڑے گا

مُحمدّ کہ احمد کہ نعُماں کہ مالِک !
کسی ایک رستے پر آنا پڑے گا

تکبّر سے نَفرت، ترحُّم سے اُلفت !!
محبّت کو دل میں بسانا پڑے گا

وہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی


وہ موجِ تبسّم شگفتہ شگفتہ ، وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی
وہ سُنبل سے گیسو سنہرے سنہرے ، وہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی

کفِ دست نازک حنائی حنائی ، وہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی
وہ باتوں میں جادو اداؤں میں ٹونا ، وہ دُزدیدہ نظریں عقابی عقابی

کبھی خوش مزاجی ، کبھی بے نیازی، ابھی ہوشیاری ، ابھی نیم خوابی
قدم بہکے بہکے نظر کھوئی کھوئی ، وہ مخمور لہجہ شرابی شرابی

نہ حرفِ تکلّم ، نہ سعیِ تخاطب ، سرِ بزم لیکن بہم ہم کلامی
ادھر چند آنسو سوالی سوالی ، اُدھر کچھ تبسّم جوابی جوابی

وہ سیلابِ خوشبو گلستاں گلستاں ، وہ سروِ خراماں بہاراں بہاراں
فروزاں فروزاں جبیں کہکشانی ، درخشاں درخشاں نظر ماہتابی

نہ ہونٹوں پہ سرخی ، نہ آنکھوں میں کاجل ، نہ ہاتھوں میں کنگن ، نہ پیروں میں پائل
مگر ھُسنِ سادہ مثالی مثالی ، جوابِ شمائل فقط لاجوابی

وہ شہرِ نگاراں کی گلیوں کے پھیرے ، سرِ کوئے خوباں فقیروں کے ڈیرے
مگر حرفِ پُرسش ، نہ اِذنِ گزارش ، کبھی نامُرادی کبھی باریابی

یہ سب کچھ کبھی تھا ، مگر اب نہیں ہے کہ آوارہ فرہاد گوشہ نشیں ہے
نہ تیشہ بدوشی ، نہ خارہ شگافی ، نہ آہیں ، نہ آنسو ، نہ خانہ خرابی

کہ نظروں میں اب کوئی شیریں نہیں ہے ، جدھر دیکھیئے ایک مریم کھڑی ہے
نجابت ساپا ، شرافت تبسّم ، بہ عصمت مزاجی ، بہ عفّت مآبی

جو گیسو سنہرے تھے اب نُقرئی ہیں ، جن آنکھوں میں جادو تھا ، اب باؤضو ہیں
یہ پاکیزہ چہرے ، یہ معصوم آنکھیں ، نہ وہ بے حجابی ، نہ وہ بے نقابی

وہ عشقِ مجازی حقیقت میں ڈھل کر تقدّس کی راہوں پہ اب گامزن ہے
جو حُسنِ نگاراں فریبِ نظر تھا ، فرشتوں کی صورت ہے گِردوں جنابی

وہ صورت پرستی سے اُکتا گیا ہے ، خلوصِ نظر اور کچھ ڈھونڈتا ہے
نہ موجِ تبسّم ، نہ دستِ حنائی ، نہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی

نہ دُزدیدہ نظریں عقابی عقابی ، نہ مخمور لہجہ شرابی شرابی
نہ سُنبل سے گیسو سنہرے سنہرے ، نہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی

آج کے لوگ

قبلہ رو ہو کے محمدۖ کو روزانہ دیکھوں

تیری آنکھیں تيری زلفیں تیرا شانہ دیکھوں ـ ـــــ ـ
بارہا خواب میں منظر یہ سہانہ دیکھوں ـ ـــــ ـ

لوگ سارے تو تیرے شہر کے دیوانے ہیں ـ ـــــ ـ
میری خواہش ہے کہ میں تیرا زمانہ دیکھوں ـ ـــــ ـ

ریت پہنی ہوئی مکے کی گزرگاہوں پر ـ ـــــ ـ
نیچی نظروں سے تیرا غار میں جانا ریکھوں ـ ـــــ ـ

تیرے کمبل سے تیرے جسم کی خوشبو سونگھوں ـ ـــــ ـ
تجھ پہ اترا تھا جو حکمت کا خزانہ دیکھوں ـ ـــــ ـ

تیرے ہاتھوں نے کئی دن کی کڑی دھوپ کے بعد ـ ـــــ ـ
فاطمہ کو جو کھلایا تھا وہ کھانا دیکھوں ـ ـــــ ـ

حکم اللہ سے اس رات کی خاموشی میں ـ ـــــ ـ
سوۓ یثرب تجھے ہوتے میں روانہ دیکھوں ـ ـــــ ـ

پاۓ صدیق کو جس سانپ نے ہر بار ڈسا ـ ـــــ ـ
میں اسی سانپ کا گمنام ٹھکانہ دیکھوں ـ ـــــ ـ

جنگ خندق میں جو باندھے تھے وہ پتھر چوموں ـ ـــــ ـ
اور مصیبت میں تیرا ساتھ نبھانا دیکھوں ـ ـــــ ـ

جان کے دشمن تو نئےخوف سے تھرائيں مگر ـ ـــــ ـ
معاف کرنے کا وہ انداز پرانا ديکھوں ـ ـــــ ـ

چشم اطہر کو خدایا وہ بصیرت دے دے ـ ـــــ ـ
قبلہ رو ہو کے محمدۖ کو روزانہ دیکھوں ـ ـــــ ـ

ایک گهونسہ ایک تهپڑ ایک لات

فاعلاتن فاعلاتن فاعلات
ایک گھونسہ ایک تھپڑ ایک لات
کون سنتاھے بھلا حمزہ کی بات
پاگلاتن پاگلاتن پاگلات
قول عاطف سے نکل جائیگی رات
باؤلاتن باؤلاتن باؤلات
محفلوں میں بیٹه کر کرنا نہ بات
واہیاتن واہیاتن واہیات
جانتا ہوں میں تیرے دن اور رات
چغلیاتن چغلیاتن چغلیات
سب سے اچها محکمہ ہے تعلیمات
تعطیلاتن تعطیلاتن تعطیلات
سب سے مہنگی عورتوں کی خواہشات
زیو راتن زیو راتن زیو رات
آدمی میں کم ہوں گی نہ تا حیات
خواہشاتن خواہشاتن خواہشات
دے چکیں تعلیم میں طلباء کو مات
طا لیباتن طا لیباتن طا لیبات
مرد شاعر کی نکالیں گی برات
شاعراتن شاعراتن شاعرات
خوب کر بیگم کی، اس میں ہے نجات
تعر یفاتن تعر یفاتن تعر یفات
آپ سب کو بها گئی کرنل کی بات
تسلیماتن تسلیماتن تسلیمات
ہر گلی کوچے مین پھرتی دیکھ لو
کاسیاتٌ عاریاتٌ فاحشات

شیخ جی کی ایک نہیں سات سات،،،
بیگماتن ،،اھلیاتن ،،معشوقات،،،،،،،،

عورتوں کے بس یہی ھیں تین کام-،
فیشناتن ،،میکپاتن،،،،،چغلیات،،،

تیری گلی کا منظر

تیری گلی کا یہ منظر بڑا عجیب لگا
کہ بادشاہ بھی گزرا تو  وہ غریب لگا
بس ایک شہر مدینہ ہے ساری دنیا میں
جہاں پہونچ کے اللہ بہت قریب لگا