Monday, December 19, 2016

تمام والدین اور بچوں کے لئے

تمام والدین اور بچوں کے لئے .
یہ کچھ ضروری باتوں کی فہرست ہے. جو تمام والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو بتائیں اور سکھائیں

1. ہمیشہ لڑکیوں کو خبردار کریں کہ وہ کسی بھی مرد کی گود میں نہ بیٹھیں. چاہے وہ رشتے میں کچھ بھی لگتا ہو.
2 . دو سال کی عمر سے بچوں کو سکھائیں کہ وہ کسی کے سامنے لباس نہ بدلیں. خاص طور پر لڑکیوں کو ہمیشہ اس بات پر سختی سے عمل کرنا چاہیے.
3.  کسی کو بھی ہرگز یہ اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کے بچوں کو "میری بیوی، میرا شوہر، میری بہو، میرا داماد" کہہ کر تعرف کروانے. جیسا کہ آجکل اکثر فیملی بچوں کی پیدائش کے بعد ہی ان کہ رشتوں کی خواہش ظاہر کی جاتی ہے کہ فلاں کو میں اپنی بہو بناؤں گی یا فلاں کو میں اپنی بیٹی دوں گی.
4 .  جب بھی آپ کے بچے باہر کھیلنے جائیں یا دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلیں تو ان پر نظر رکھیں کہ وہ کس طرح کے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں اور کس قسم کا کھیل کھیلتے ہیں. کیونکہ آجکل بچے جنسی طور پر ہراساں کیے جاتے ہیں.
5.  کبھی بھی اپنے بچوں کو کسی بالغ کے پاس جانے پر مجبور نہ کریں اگر وہ نہ جانا چاہیں تو. اس بات کا سختی سے خیال رکھیں کہ کہیں آپ کا بیٹا یا بیٹی کسی بھی بالغ مرد یا عورت کے ساتھ زیادہ قریب تو نہیں یا اس کے پاس جانے کے لئے ضد تو نہیں کرتے.
6 . اگر آپکا بچہ جو ہمیشہ ہنستا مسکراتا اور خوش رہے لیکن اچانک چپ لگ جانے اور گم سم رہنے لگے تو اس سے بہت سارے سوالات پوچھیں اور پوری طرح سے بات کی تصدیق کریں. ہو سکتا ہے کسی نے اسے ہراساں کیا ہو.
7. . اس بات کا ہمیشہ خاص خیال رکھیں کہ جب بھی آپ بچوں کے لئے کوئی فلم یا کارٹون لاتے ہیں تو پہلے اسے خود دیکھ کر چیک کر لیں کہ کہیں اس میں کوئی جنسی مواد نہ ہو جو بچوں کے ذہن پر اثر کرے.
8.. اپنے جوان ہوتے ہوے بچوں کو بہت ہی احتیاط سے سیکس کے بارے میں تعلیم دیں اور اچھائی برائی میں فرق کرنا سکھائیں. ورنہ معاشرہ ان کو غلط اقدار سکھا دے گا اور وہ اچھائی برائی میں فرق کرنا بھول جائیں گے.
9.  اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے گھر میں کیبل نیٹ ورک پر پیرینٹل کنٹرول ایکٹو ہے اور کوئی بھی سیکسی یا رومانٹک پروگرام نہ چل سکے جس سے بچوں کے ذہن پر اثر پڑے اور اپنے ان دوستوں اور رشتےداروں کو بھی خبردار کریں اس بات سے جہاں آپ کے بچے اکثر جاتے ہیں.
10. اپنے تین سال کے بچوں کو اچھی طرح سے سمجھا دیں کہ کس طرح اپنی شرمگاہ کو مناسب طریقے سے دھونا ہے. ان کو سختی سے خبردار کریں کہ وہ اپنی شرمگاہ کو اور اپنے جسم کے کن حصوں کو چھپا کر رکھیں اور کبھی کسی کو چھونے مت دیں. اور اس بات پر سب سے آپ خود عمل کرنا شروع کریں.
11. کسی بھی قسم کی ایسی چیزیں یا ایسے لوگ جن سے آپ کے بچوں کو کوئی ڈر یا خوف محسوس ہوتا ہو یا ان کے ساتھ بچوں کا دل مطمئن نہ ہوتا ہو تو ایسی تمام چیزوں اور ایسے تمام لوگوں سے ہمیشہ کے لئے تعلق ختم کر دیں. ایسی چیزوں میں کوئی گانے ڈرامے فلم یا کارٹون ہو سکتے ہیں اور ایسے لوگوں میں آپ کے کوئی دوست یا رشتےدار بھی ہو سکتے ہیں.
12. اگر ایک بار بھی آپ کے بچے کو کسی خاص شخص سے کوئی شکایت ہے تو اس پر چپ مت رہیں. کیس اپنے ہاتھ میں لیں اور اس کی شکایت پر ایکشن لیں تا کہ اسے یقین ہو کے اس کا دفاع بہت اچھا کر سکتے ہیں.
13. اپنے بچوں کو لوگوں کے رش اور بھیڑ سے دور رہ کر اقدار کو سمجھنے دیں. ان کو کبھی بھی زبردستی لوگوں میں ملوث مت کریں.
ہم والدین ہیں یا ہونے جا رہے ہیں.
لیکن یاد رکھیں کہ "درد زندگی بھر رہتا ہے"

Sunday, October 9, 2016

ہارون رشید کی دو کنیزیں ۔

ہارون الرشید کو ایک لونڈی کی ضرورت تهی، اس نے اعلان کیا کہ مجهے ایک لونڈی درکار ہے،اس کا یه اعلان سن کر اس کے پاس دو لونڈیاں آئیں اور کہنے لگیں ہمیں خرید لیجیے! ان دونوں میں سے ایک کا رنگ کالا تها ایک کا گورا.
هارون الرشید نے کہا مجهے ایک لونڈی چاهیے دو نہیں.
گوری بولی تو پهر مجهے خرید لیجیے حضور! کیونکہ گورا رنگ اچها ہوتا ہے...
کالی بولی حضور رنگ تو کالا ہی اچها ہوتا هے آپ مجهے خریدیے.
ہارون الرشید نے ان کی یہ گفتگو سنی تو کہا. اچها تم دونوں اس موضوع پر مناظرہ کرو کہ رنگ گورا اچها ہے یا کالا؟
جو جیت جائے گی میں اسے خرید لونگا..
دونوں نے کہا بہت اچها! چنانچہ دونوں کا مناظرہ شروع ہوا
اور کمال یہ ہوا کہ دونوں نے اپنے رنگ کے فضائل و دلائل عربی زبان میں فی البدیہ شعروں میں بیان کیے. یہ اشعار عربی زبان میں هیں مگر مصنف نے ان کا اردو زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے، لیجئے آپ بهی پڑهئے اور غور کیجئے کہ پہلے زمانے میں لونڈیاں بهی کس قدر فہم و فراست کی مالک ہوا کرتی تهیں
گوری بولی:
''موتی سفید ہے اور قیمت ہے اس کی لاکهوں،
اور کوئلہ ہے کالا پیسوں میں ڈهیر پالے''
(بادشاہ سلامت ! موتی سفید ہوتا ہے، اور کس قدر قیمتی هوتا ہے، اور کوئلہ جو کہ کالا ہوتا ہے کس قدر سستا ہوتا ہے کہ چند پیسوں میں ڈهیر مل جاتا ہے)
اور سنیے؛
''اللہ کے نیک بندوں کا منہ سفید ہوگا،
اور دوزخی جو ہونگے،منہ ان کے هونگے کالے''
بادشاه سلامت اب آپ ہی انصاف کیجیے گا کہ رنگ گورا اچها ہے یا نہیں؟
بادشاہ ''گوری'' کے یہ اشعار سن کر بڑا خوش ہوا
اور پهر کالی سے مخا طب ہوکر کہنے لگا. سنا تم نے؟؟ اب بتاو کیاکہتی ہو؟؟
کالی بولی حضور!
''ہےمشک نافہ کالی قیمت میں بیش عالی،
ہے روئی سفید اور پیسوں میں ڈهیر پالی''
(کستوری کالی ہوتی ہے، مگر بڑی گراں قدر اور بیش قیمت مگر روئی جع کہ سفید ہوتی ہے، بڑی سستی مل جاتی ہے اور چند پیسوں میں ڈهیر مل جاتی ہے)
اور سنیے؛
''آنکهوں کی پتلی کالی ہے نور کا وہ چشمہ،
اور آنکهہ کی سفیدی ہے نور سے وہ خالی''
بادشاه سلامت اب آپ ہی انصاف کیجیے کہ رنگ کالا اچها ہے یا نہیں؟؟ کالی کے یہ اشعار سن کر بادشاہ اور بهی زیادہ خوش ہوا اور پهر گوری کی طرف دیکها تو فورا بولی:
''کاغذ سفید ہیں سب قرآن پاک والے''
کالی نے جهٹ جواب دیا:
''اور ان پہ جو لکهے ہیں قرآں کے حرف کالے''
گوری نے پهر کہا کہ:
''میلاد کا جو دن ہے روشن وہ بالیقیں ہے''
کالی نے جهٹ جواب دیا کہ:
''معراج کی جو شب هے کالی هے یا نہیں ہے؟؟''
گوری بولی کہ:
''انصاف کیجیے گا، کچهہ سوچیے گا پیارے!
سورج سفید روشن، تارے سفید سارے''
کالی نے جواب دیا کہ:
''ہاں سوچیے گا آقا! ہیں آپ عقل والے،
کالا غلاف کعبہ، حضرت بلال کالے''
گوری کہنے لگی کہ
''رخ مصطفے ہے روشن دانتوں میں ہے اجالا''
کالی نے جواب دیا
''اور زلف ان کی کالی کملی کا رنگ کالا''
بادشاہ نے ان دونوں کے یہ علمی اشعار سن کر کہا. کہ مجهے لونڈی تو ایک درکار تهی مگر میں تم دونوں ہی کو خرید لیتا ہوں.

Monday, August 29, 2016

انٹرنیٹ اور عاشق

نیٹ ایجاد ہوا ہجر کے ماروں کے لیے
سرچ انجن ہے بڑی چیز کنواروں کے لیے
جس کو صدمہ شبِ تنہائی کے ایام کا ہے
ایسے عاشق کے لیے نیٹ بہت کام کا ہے
نیٹ فرہاد کو شیریں سے ملا دیتا ہے
عشق انسان کو گوگل پہ بٹھا دیتا ہے
ٹیکسٹ میں لوگ محبت کی خطا بھیجتے ہیں
گھر بتاتے نہیں آفس کا پتہ بھیجتے ہیں
عاشقوں کا یہ نیا طور نیا ٹائپ ہے
پہلے چلمن ہوا کرتی تھی اب اسکائپ ہے
عشق کہتے ہیں جسے اک نیا سمجھوتا ہے
پہلے دل ملتے تھے اب نام کلک ہوتا ہے
دل کا پیغام جب ای میل سے مل جاتا ہے
میل ہر چوک پہ فی میل سے مل جاتا ہے
عشق کا نام فقط آہ و فغاں تھا پہلے
ڈاک خانے میں یہ آرام کہاں تھا پہلے
آئی ڈی جب سے ملی ہے مجھے ہمسائی کی
اچھی لگتی ہے طوالت شبِ تنہائی کی
فیس بک کوچۂ جاناں سے ہے ملتی جلتی
ہر حسینہ یہاں مل جائے گی ہلتی جلتی
یہ موبائل کسی عاشق نے بنایا ہو گا
اس کو محبوب کے ابا نے ستایا ہو گا
ٹیکسٹ جب عاشقِ برقی کا اٹک جاتا ہے
طالبِ شوق تو سولی پہ لٹک جاتا ہے
آن لائن ترے عاشق کا یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی

Tuesday, August 16, 2016

منشی شنکر لال ساقی اور منشی درگا سہائے سرور جہاں آبادی

منشی شنکر لال ساقی
سب سے پہلے غیر مسلم نعت گو شاعر منشی شنکر لال ساقی(متوفی 1890ء) ہیں۔ انہوں نے فارسی اور اُردو دونوں زبانوں میں شعر کہے ہیں۔ان کے نعتیہ کلام میں سے بطور نمونہ دو اشعاریہ ہیں:
جیتے جی روضہء اقدس کو نہ آنکھوں نے دیکھا
روح جنت میں بھی ہو گی تو ترستی ہو گی
نعت لکھتا ہوں مگر شرم مجھے آتی ہے
کیا مری ان کے مدح خوانوں میں ہستی ہو گی

منشی درگا سہائے سرور جہاں آبادی (المتوفی1910ء) نے بھی سرور کائناتﷺ کی تعریف و توصیف میں سخن آرائی کی اور نعت کے موضوع پر ایک کتاب پرچہ درشانِ محمد مصطفیﷺ لکھی۔جو 1905ء میں منصہ مشہود پر جلوہ گر ہوئی اس کتاب سے ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے ۔
دلِ بے تاب کو سینے سے لگالے آ جا
کہ سنبھلتا نہیں کم بخت سنبھالے آ جا
پاؤں ہیں طولِ شب غم نے نکالے آ جا
خواب میں زلف کو مکھڑے سے لگا لے آ جا
بے نقاب آج تو اے گیسوؤں والے آ جا
نہیں خورشید کو ملتا ترے سایے کا پتہ
کہ بنا نورِ ازل سے ہے سراپا تیرا
اﷲ اﷲ ترے چاند سے مکھڑے کی ضیا
کون ہے ماہِ عرب کون ہے محبوبِ خدا
اے دو عالم کے حسینوں سے نرالے آ جا

ہندو. شاعر، نعت پاک اور بینائی کی واپسی

ہندو. شاعر، نعت پاک اور بینائی کی واپسی

ایک رسالے میں نظر سے گزرا تھا کہ ایک مرتبہ شیخ المشائخ حضرت خواجہ خان محمد صاحبؒ نے جناب نبی کریم ﷺ کاذکرِ خیرکیا اور فرمایا کہ آپ رحمۃ للعالمین تھے ۔ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ تمام مخلوقات اور تمام غیر مسلموں کے لئے بھی رحمت ہیں ۔ ایک ہندو شاعر ( شاید بھیم داس نرائن) حج کے موسم میں ایک حاجی کے پاس کسی کی مدد سے پہنچا کیونکہ وہ نابینا ہو چکا تھا ، حاجی کو بتایا کہ میں ہندوہوں لیکن نبی کریم ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں ، مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ مجھے اس رحمت سے محروم نہیں رکھیں گے ۔ لہٰذا میں ایک نعت لکھ کر لایا ہوں یہ حضور اقدس ﷺ کے روضۂ اطہر پر پڑھنا ، میں آپ کا ممنون ہوں گا ۔ کافی دنوں بعد یہ ہندو اپنی محفل میں بیٹھا تھا کہ اچانک کہنے لگا کہ آج میر ی نعت روضۂ اطہر پر پڑھی جا رہی ہے ۔ لوگوں نے پوچھا : کیسے محسوس ہوا ؟ ہندو نے جواب دیا کہ میری نظر واپس آرہی ہے ، جب نعت پوری ہوئی تو نظر بھی پوری واپس آگئی ۔ اس نعت کا ایک شعر یہ ہے ـ:

تجھ کو ناز ہے جنت پہ اے رضوان !

کیا چیز ہے وہ روضۂ اطہر کے سامنے

بندہ نے اس ہندو شاعر کی مکمل نعت شریف کی جستجو کی ‘ جو مل گئی ۔شاعر کا اصل نام اثیم داس ہے اورمکمل اشعار یہ ہیں:  ؎

پھیکا ہے نورِ خُر ‘رخِ انور کے سامنے
ہے ہیچ مشک‘ زلفِ معطر کے سامنے

خجلت سے آب آب ہیں نسرین و یاسمین
کیا منہ دکھائیں جا کے گلِ تر کے سامنے

ہے زنگِ معصیت سے سیاہ دل کا آئینہ
کیا اس کو لے کے جائوں سکندر کے سامنے

قسمت کا لکھا مٹ نہیں سکتا کسی طرح
تدبیر کیا کرے گی مقدر کے سامنے

نظرِ کرم ہو آنکھ میں آجائے روشنی
کہنا صبا یہ جا کے پیمبر کے سامنے

شیشہ نہ ہو نہ سنگ ہو‘ چشمہ ہو نور کا
اس کو لگا کے جائوں میں سرور کے سامنے

جس در سے آج تک کوئی لوٹا نہ خالی ہاتھ
دستِ طلب دراز ہے اس در کے سامنے

رضواں تجھے جو ناز ہے جنت پہ اس قدر
کیا چیز ہے وہ روضۂ اطہر کے سامنے

سر پہ ہو ان کا دستِ شفاعت اثیمؔ کے
جس دم کھڑا ہو داورِ محشر کے سامنے

-- منقول۔

Sunday, August 14, 2016

مٹی کی محبت میں

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

شاعر : افتخار عارف

Saturday, August 13, 2016

سارے جہاں سے اچھا

سارے جہاں سے اچّھا ھندوستاں ہمارا
مشکل بہت ہے لیکن جینا یہاں ہمارا 
سب بلبلیں یہ کہ کر خاموش ہو گئی ہیں
کوؤں کے شور  میں اب نغمہ کہاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا غم سے پگھل رہا ہے
معلوم ہے اسے بھی درد نہاں ہمارا
گودی میں کھیلتی ھیں  اسکی غلیظ ندیاں
گلشن ہے جن کے با عث اک کوڑا داں   ہمارا
ہندوتو نے سکھایا آپس میں بیر رکھنا
الفت کا راگ سارا ہے رائیگاں ہمارا
ہم بے وفا ہی سمجھے جاتے رہے ہیں ابتک
سو بار لے چکے ہیں یہ امتحاں ہمارا

ہر پیڑ پر ہیں الّو قبضہ جمائے بیٹھے 
کس شاخ پر بنے گا اب آشیاں ہمارا

عصمت دری،گھٹالے،غارتگری ہے ہر سو 
ہے مضحکہ اڑاتا سارا جہاں ہمارا
جنّت  نما چمن پر کیونکر خزاں نہ  آ یے
اک بلبلوں کا قاتل ہے  باغباں ہمارا

دہشت گری کا ہم پر الزام آرہا ہے
اب تو وجود تک ہے انکو گراں ہمارا

ہم کو مٹانے والے سب مٹ گئے جہاں سے
ابتک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
اقبال آج ہوتے تو  آہ آہ کرکے
کہتے بدل گیا ہے ہندوستاں ہمارا....

Monday, August 1, 2016

اعلی حضرت کی چہار زبانی نعت

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے چار زبانوں عربی فارسی اُردو ہندی میں یہ نعت لکھی جس کی مثال نہیں ملتی۔*

لَم یَاتِ نَظیرُکَ فِی نَظَر مثل تو نہ شد پید جانا

جگ راج کو تاج تورے سر سوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

*ترجمہ
آپ کی مثل کسی آنکھ نے نہیں دیکھا نہ ہی آپ جیسا کوئی پیدا ہوا
سارے جہان کا تاج آپ کے سر پر سجا ہے اور آپ ہی دونوں جہانوں کے سردار ہیں

اَلبحرُ عَلاَوالموَجُ طغےٰ من بیکس و طوفاں ہوشربا

منجدہار میں ہوں بگڑی ہے ہواموری نیا پار لگا جانا

* ترجمہ
دریا کا پانی اونچا ہے اور موجیں سرکشی پر ہیں میں بے سروسامان ہوں اور طوفان ہوش اُڑانے والا ہے
بھنورمیں پھنس گیا ہوں ہوا بھی مخلالف سمت ہے آپ میری کشتی کو پار لگا دیں

یَا شَمسُ نَظَرتِ اِلیٰ لیَلیِ چو بطیبہ رسی عرضے بکنی

توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا

* ترجمہ
اے سورج میری اندھیری رات کو دیکھ تو جب طیبہ پہنچے تو میری عرض پیش کرنا
کہ آپ کی روشنی سے سارا جہان منور ہو گیا مگر میری شب ختم ہو کر دن نہ بنی

لَکَ بَدر فِی الوجہِ الاجَمل خط ہالہ مہ زلف ابر اجل

تورے چندن چندر پروکنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا
*ترجمہ
آپ کا چہرہ چودھویں کے چاند سے بڑھ کر ہےآپ کی زلف گویا چاند کے گرد ہالہ (پوش)ہے
آپ کے صندل جیسے چہرہ پر زلف کا بادل ہے اب رحمت کی بارش برسا ہی دیں

انا فِی عَطَش وّسَخَاک اَتَم اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرم

برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا

ترجمہ
میں پیاسا ہوں اور آپ کی سخاوت کامل ہے،اے زلف پاک اے رحمت کے بادل
برسنے والی بارش کی ہلکی ہلکی دو بوندیں مجھ پر بھی گرا جا

یَا قاَفِلَتیِ زِیدَی اَجَلَک رحمے برحسرت تشنہ لبک

مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا

*ترجمہ*
اے قافلہ والوں اپنے ٹھہرنے کی مدت زیادہ کرو میں ابھی حسرت زدہ پیاسا ہوں
میرا دل طیبہ سے جانے کی صدا سن کر گھبرا کر تیز تیز ڈھڑک رہا ہے

وَاھا لسُویعات ذَھَبت آں عہد حضور بار گہت

جب یاد آوت موہے کر نہ پرت دردا وہ مدینہ کا جانا

ترجمہ
افسوس آپ کی بارگاہ میں حضوری کی گھڑیاں تیزی سے گزر گئی
مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے جب میں سفر کی تکالیف کی پرواہ کئے بغیر مدنیہ آ رہا تھا

اَلقلبُ شَح وّالھمُّ شجوُں دل زار چناں جاں زیر چنوں

پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مورا کون ہے تیرے سوا جانا

ترجمہ
دل زخمی اور پریشانیاں اندازے سے زیادہ ہیں،دل فریادی اور چاں کمزور ہے
میراے آقا میں اپنی پریشانیاں کس سے کہوں میری جان آپ کے سوا کون ہے جو میری سنے

اَلروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عسقا

مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا

ترجمہ
میری جان آپ پر فدا ہے،عشق کی چنگاری سے مزید بڑھا دیں
میرا جسم دل اور سامان سب کچھ نچھاور ہو گیا اب اس جان کو بھی جلا دیں

بس خامہ خام نوائے رضا نہ یہ طرز میری نہ یہ رنگ مرا

ارشاد احبا ناطق تھا ناچار اس راہ پڑا جانا

ترجمہ
رضا کی شاعری نا تجربہ کاراور قلم کمزور ہے ، میرا طور طریقہ اور انداز ایسا نہیں ہے
دوستوں کے اصرار پر میں نے اس طرح کی راہ اختیار کی یعنی چار زبانوں میں شاعری کی۔

Friday, July 22, 2016

باب التوبة مفتوح فبادر قبل أن تغادر

🔹انتبه :

سنموت حتما عاجلاً أم آجلاً..
          ولسوف نرحل للقبور قوافلا

فلقد دنا الموت المخيف بسرعة..
           ليسوقنا نحو الحساب مراحلا

شخص يموت على الطريق بحادث..
        والبعض قد يهوي صريعاً عاجلا

وهناك شخص قد يموت مجاهدا..
      ليعيش في الأخرى شهيداً فاضلا

فاختر لنفسك يا صديقي ميتة..
        واحذر بأن تقضي حياتك غافلا

فالموت آت يا صديقي فانتبه!..
    وانهض وتب إن كنت شخصاً عاقلا

فالله يفرح عند توبة عبده..
            فالجأ إليه ولا تكن متجاهلا

باب التوبة مفتوح فبادر قبل أن تغادر

Monday, July 18, 2016

ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ

اجمیر میں نعتیہ مشاعرہ تھا، فہرست بنانے والوں کے سامنے یہ مشکل تھی کہ جگر صاحب کو اس مشاعرے میں کیسے بلایا جائے ، وہ کھلے رند تھے اورنعتیہ مشاعرے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی۔ اگر فہرست میں ان کانام نہ رکھا جائے تو پھر مشاعرہ ہی کیا ہوا۔ منتظمین کے درمیان سخت اختلاف پیداہوگیا۔ کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔

دراصل جگر کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔ بڑے بڑے شیوخ اور عارف باللہ اس کی شراب نوشی کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن لائق اصلاح۔ شریعت کے سختی سے پابند مولوی حضرات بھی ان سے نفرت کرنے کے بجائے افسوس کرتے تھے کہ ہائے کیسا اچھا آدمی کس برائی کا شکار ہے۔ عوام کے لیے وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن تھے شرابی۔ تمام رعایتوں کے باوجود مولوی حضرات بھی اور شاید عوام بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ وہ نعتیہ مشاعرے میں شریک ہوں۔آخر کار بہت کچھ سوچنے کے بعد منتظمین مشاعرہ نے فیصلہ کیا کہ جگر ؔکو مدعو کیا جانا چاہیے۔یہ اتنا جرات مندانہ فیصلہ تھا کہ جگرؔ کی عظمت کا اس سے بڑااعتراف نہیں ہوسکتاتھا۔جگرؔ کو مدعو کیا گیا تووہ سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔ ’’میں رند، سیہ کار، بد بخت اور نعتیہ مشاعرہ! نہیں صاحب نہیں‘‘ ۔

اب منتظمین کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ جگر صاحب ؔکو تیار کیسے کیا جائے۔ ا ن کی تو آنکھوں سے آنسو اور ہونٹوں سے انکار رواں تھا۔ نعتیہ شاعر حمید صدیقی نے انہیں آمادہ کرنا چاہا، ان کے مربی نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہوتے تھے، بالآخر اصغرؔ گونڈوی نے حکم دیا اور وہ چپ ہوگئے۔

سرہانے بوتل رکھی تھی، اسے کہیں چھپادیا، دوستوںسے کہہ دیا کہ کوئی ان کے سامنے شراب کا نام تک نہ لے۔دل پر کوئی خنجر سے لکیر سی کھینچتا تھا، وہ بے ساختہ شراب کی طرف دوڑتے تھے مگر پھر رک جاتے تھے، شیرازن سے ہمارا رشتہ فراق کا ہے لیکن شراب سے تو نہیں لیکن مجھے نعت لکھنی ہے ، شراب کا ایک قطرہ بھی حلق سے اتراتو کس زبان سے اپنے آقا کی مدح لکھوں گا۔ یہ موقع ملا ہے تو مجھے اسے کھونانہیں چاہیے، شاید یہ میری بخشش کا آغاز ہو۔ شاید اسی بہانے میری اصلاح ہوجائے، شایدمجھ پر اس کملی والے کا کرم ہوجائے، شایدخدا کو مجھ پر ترس آجائے۔
ایک دن گزرا، دودن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے تھے اور غزل کہنے لگتے تھے، سوچتے رہے، لکھتے رہے، کاٹتے رہے، لکھے ہوئے کو کاٹ کاٹ کر تھکتے رہے، آخر ایک دن نعت کا مطلع ہوگیا۔ پھر ایک شعر ہوا، پھر تو جیسے بارش انوار ہوگئی۔ نعت مکمل ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا۔

مشاعرے کے لیے اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جارہے ہوں۔ کونین کی دولت ان کے پاس ہو۔ جیسے آج انہیں شہرت کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہو۔ انہوں نے کئی دن سے شراب نہیں پی تھی، لیکن حلق خشک نہیں تھا۔ادھر تو یہ حال تھا دوسری طرف مشاعرہ گاہ کے باہر اور شہرکے چوراہوں پر احتجاجی پوسٹر لگ گئے تھے کہ ایک شرابی سے نعت کیوں پڑھوائی جارہی ہے۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جگرصاحب ؔ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے یہ خطرہ بھی تھاکہ لوگ اسٹیشن پر جمع ہوکر نعرے بازی نہ کریں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے جگر کی آمد کو خفیہ رکھا تھا۔وہ کئی دن پہلے اجمیر پہنچ چکے تھے جب کہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ مشاعرے والے دن آئیں گا۔جگر اؔپنے خلاف ہونے والی ان کارروائیوںکو خود دیکھ رہے تھے اور مسکرارہے تھے؎

کہاں پھر یہ مستی کہاں ایسی ہستی
جگرؔ کی جگر تک ہی مے خواریاں ہیں

آخر مشاعرے کی رات آگئی۔جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ مشاعرے میں پہنچا دیا گیا۔

’’رئیس المتغزلین حضرت جگر مرادابادی!‘‘
اس اعلان کے ساتھ ہی ایک شور بلند ہوا، جگر نے بڑے تحمل کے ساتھ مجمع کی طرف دیکھا…’’آپ لوگ مجھے ہوٹ کررہے ہیں یا نعت رسول پاک کو،جس کے پڑھنے کی سعادت مجھے ملنے والی ہے اور آپ سننے کی سعادت سے محروم ہونا چاہتے ہیں‘‘۔شور کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ بس یہی وہ وقفہ تھا جب جگر کے ٹوٹے ہوئے دل سے یہ صدا نکلی ہے

اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ
ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ

جوجہاں تھا ساکت ہوگیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی زبان سے شعر ادا ہورہا ہے اور قبولیت کا پروانہ عطا ہورہا ہے۔نعت کیا تھی گناہگار کے دل سے نکلی ہوئی آہ تھی،خواہشِ پناہ تھی، آنسوؤں کی سبیل تھی، بخشش کا خزینہ تھی۔وہ خود رو رہے تھے اور سب کو رلا رہے تھے، دل نرم ہوگئے، اختلاف ختم ہوگئے، رحمت عالم کا قصیدہ تھا، بھلا غصے کی کھیتی کیونکر ہری رہتی۔’’یہ نعت اس شخص نے کہی نہیں ہے، اس سے کہلوائی گئی ہے‘‘۔مشاعرے کے بعد سب کی زبان پر یہی بات تھی۔ اس نعت کے باقی اشعار یوں ہیں:

دامان نظر تنگ و فراوانیِ جلوہ
اے طلعتِ حق طلعتِ سلطانِ مدینہ

اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق
تو خلد ہے تو جنت ِسلطان مدینہ

اس طرح کہ ہر سانس ہومصروفِ عبادت
دیکھوں میں درِ دولتِ سلطانِ مدینہ

اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظرِ دید
صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ

کونین کا غم یادِ خدا ور شفاعت
دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ

ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم
شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ

اس امت عاصی سے نہ منہ پھیر خدایا
نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ

کچھ ہم کو نہیں کام جگرؔ اور کسی سے
کافی ہے بس اک نسبت ِسلطان مدینہ

( منقول )

Wednesday, July 6, 2016

کس کی کیسی عید

تلک عشرةکاملہ

1-مجاہد کی عید
زندگی کے واسطے درکار کیف جستجو
زندگی کے حوصلے ہیں زندگی کی آبرو
ہے جوابِ ماہِ نو، ہر جذبہء عالم پناہ
عید کیا ہے احتسابِ کائنات  وجاھدوا

2-روزہ دار کی عید

زندگی کے حوصلے ہیں اور تائیدِ رضا
نقش فانی میں ابھرتے ہیں کمالاتِ بقا
اے ہلالِ عید رک کراس کا بھی نظارہ کر
چشمِ روزہ دار،  یعنی مہبطِ نورِ خدا

3-سلطان کی عید

زندگی گرمِ سفر ہے عزمِ یکتائی لیے
عزمِ یکتائ فرو فالِ خود افزائی لیے
با ادب ہے ہرستارہ شوکت وجبروت سے
چاند آیا ہے نئ شانِ صف آرائی لیے

4-یتیم کی عید

عید یعنی یہ مسرت کا سماں میرے لیے
لیکے آیا ہے فغاں، ضبطِ فغاں میرے لیے
دیکھ مجھ کو آگیا ہے راس ہر زخمِ کہن
اے ہلالِ عید! کوئ ارمغاں میرے لیے

5-بیوہ کی عید

سخت مشکل ہے خدا یا کاروبارِ ضبطِ غم
اک طرف ہنگامِ عشرت اک طرف فرطِ الم
اے ہلالِ عید کس کے واسطے لایا ہے تو
عید  یعنی  گردشِ ایام  کا تازہ  ستم

6-مزدور کی عید

گو جھکی جاتی ہے بارِ زندگانی سے کمر
گو شبِ تاریک ہستی میں نہیں  نور ِ سحر
اے ہلالِ عید! تیری نذر یہ نظارہ ہے
تیری جانب اٹھ رہی ہےایک غربت کی نظر

7محصل کی عید

معتکف ہیں معبدِ زر میں دل ودینِ حیات
یہ امید ونا امیدی،  یہ ثبات ونا ثبات
اٹھ رہی ہےتیری جانب اک محصل کی نظر
اے ہلالِ عید!  اے پیغامِ تحصیلِ زکوة

8-لیڈر کی عید

مدتوں میں جاکے بر آتی ہے دیرینہ امید
قوم کا گوشِ سماعت چاہتا ہے اک نوید
مل گیاقدرت کی جانب سے جہانِ رستخیر
کل میری تقریر کا عنوان ہے"تحریکِ عید"

9-غلام کی عید

دیدہ ودل بے تجلی زندگانی بے امام
زندگی کے حوصلے ہیں زندگانی پر حرام
اے ہلالِ نو!  ترے پیغام کے قابل نہیں ِ
بارِ دوشِ ملتِ بیضاء  غلام  بن  غلام

10-میری عید

زندگی کو چاہےء  جذب وکمال ِ سرمدی
اس جہاں میں زندگی ہےآرزوکی محکمی
اےوہ جس نے مجھکو دکھلایاجمالِ من سعَی 
ہو ہلالِ عید کی مانند میری زندگی

کلام -حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری استاذ دارالعلوم دیوبند