Saturday, August 13, 2016

سارے جہاں سے اچھا

سارے جہاں سے اچّھا ھندوستاں ہمارا
مشکل بہت ہے لیکن جینا یہاں ہمارا 
سب بلبلیں یہ کہ کر خاموش ہو گئی ہیں
کوؤں کے شور  میں اب نغمہ کہاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا غم سے پگھل رہا ہے
معلوم ہے اسے بھی درد نہاں ہمارا
گودی میں کھیلتی ھیں  اسکی غلیظ ندیاں
گلشن ہے جن کے با عث اک کوڑا داں   ہمارا
ہندوتو نے سکھایا آپس میں بیر رکھنا
الفت کا راگ سارا ہے رائیگاں ہمارا
ہم بے وفا ہی سمجھے جاتے رہے ہیں ابتک
سو بار لے چکے ہیں یہ امتحاں ہمارا

ہر پیڑ پر ہیں الّو قبضہ جمائے بیٹھے 
کس شاخ پر بنے گا اب آشیاں ہمارا

عصمت دری،گھٹالے،غارتگری ہے ہر سو 
ہے مضحکہ اڑاتا سارا جہاں ہمارا
جنّت  نما چمن پر کیونکر خزاں نہ  آ یے
اک بلبلوں کا قاتل ہے  باغباں ہمارا

دہشت گری کا ہم پر الزام آرہا ہے
اب تو وجود تک ہے انکو گراں ہمارا

ہم کو مٹانے والے سب مٹ گئے جہاں سے
ابتک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
اقبال آج ہوتے تو  آہ آہ کرکے
کہتے بدل گیا ہے ہندوستاں ہمارا....

No comments: