Monday, August 29, 2016

انٹرنیٹ اور عاشق

نیٹ ایجاد ہوا ہجر کے ماروں کے لیے
سرچ انجن ہے بڑی چیز کنواروں کے لیے
جس کو صدمہ شبِ تنہائی کے ایام کا ہے
ایسے عاشق کے لیے نیٹ بہت کام کا ہے
نیٹ فرہاد کو شیریں سے ملا دیتا ہے
عشق انسان کو گوگل پہ بٹھا دیتا ہے
ٹیکسٹ میں لوگ محبت کی خطا بھیجتے ہیں
گھر بتاتے نہیں آفس کا پتہ بھیجتے ہیں
عاشقوں کا یہ نیا طور نیا ٹائپ ہے
پہلے چلمن ہوا کرتی تھی اب اسکائپ ہے
عشق کہتے ہیں جسے اک نیا سمجھوتا ہے
پہلے دل ملتے تھے اب نام کلک ہوتا ہے
دل کا پیغام جب ای میل سے مل جاتا ہے
میل ہر چوک پہ فی میل سے مل جاتا ہے
عشق کا نام فقط آہ و فغاں تھا پہلے
ڈاک خانے میں یہ آرام کہاں تھا پہلے
آئی ڈی جب سے ملی ہے مجھے ہمسائی کی
اچھی لگتی ہے طوالت شبِ تنہائی کی
فیس بک کوچۂ جاناں سے ہے ملتی جلتی
ہر حسینہ یہاں مل جائے گی ہلتی جلتی
یہ موبائل کسی عاشق نے بنایا ہو گا
اس کو محبوب کے ابا نے ستایا ہو گا
ٹیکسٹ جب عاشقِ برقی کا اٹک جاتا ہے
طالبِ شوق تو سولی پہ لٹک جاتا ہے
آن لائن ترے عاشق کا یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی

Tuesday, August 16, 2016

منشی شنکر لال ساقی اور منشی درگا سہائے سرور جہاں آبادی

منشی شنکر لال ساقی
سب سے پہلے غیر مسلم نعت گو شاعر منشی شنکر لال ساقی(متوفی 1890ء) ہیں۔ انہوں نے فارسی اور اُردو دونوں زبانوں میں شعر کہے ہیں۔ان کے نعتیہ کلام میں سے بطور نمونہ دو اشعاریہ ہیں:
جیتے جی روضہء اقدس کو نہ آنکھوں نے دیکھا
روح جنت میں بھی ہو گی تو ترستی ہو گی
نعت لکھتا ہوں مگر شرم مجھے آتی ہے
کیا مری ان کے مدح خوانوں میں ہستی ہو گی

منشی درگا سہائے سرور جہاں آبادی (المتوفی1910ء) نے بھی سرور کائناتﷺ کی تعریف و توصیف میں سخن آرائی کی اور نعت کے موضوع پر ایک کتاب پرچہ درشانِ محمد مصطفیﷺ لکھی۔جو 1905ء میں منصہ مشہود پر جلوہ گر ہوئی اس کتاب سے ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے ۔
دلِ بے تاب کو سینے سے لگالے آ جا
کہ سنبھلتا نہیں کم بخت سنبھالے آ جا
پاؤں ہیں طولِ شب غم نے نکالے آ جا
خواب میں زلف کو مکھڑے سے لگا لے آ جا
بے نقاب آج تو اے گیسوؤں والے آ جا
نہیں خورشید کو ملتا ترے سایے کا پتہ
کہ بنا نورِ ازل سے ہے سراپا تیرا
اﷲ اﷲ ترے چاند سے مکھڑے کی ضیا
کون ہے ماہِ عرب کون ہے محبوبِ خدا
اے دو عالم کے حسینوں سے نرالے آ جا

ہندو. شاعر، نعت پاک اور بینائی کی واپسی

ہندو. شاعر، نعت پاک اور بینائی کی واپسی

ایک رسالے میں نظر سے گزرا تھا کہ ایک مرتبہ شیخ المشائخ حضرت خواجہ خان محمد صاحبؒ نے جناب نبی کریم ﷺ کاذکرِ خیرکیا اور فرمایا کہ آپ رحمۃ للعالمین تھے ۔ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ تمام مخلوقات اور تمام غیر مسلموں کے لئے بھی رحمت ہیں ۔ ایک ہندو شاعر ( شاید بھیم داس نرائن) حج کے موسم میں ایک حاجی کے پاس کسی کی مدد سے پہنچا کیونکہ وہ نابینا ہو چکا تھا ، حاجی کو بتایا کہ میں ہندوہوں لیکن نبی کریم ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں ، مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ مجھے اس رحمت سے محروم نہیں رکھیں گے ۔ لہٰذا میں ایک نعت لکھ کر لایا ہوں یہ حضور اقدس ﷺ کے روضۂ اطہر پر پڑھنا ، میں آپ کا ممنون ہوں گا ۔ کافی دنوں بعد یہ ہندو اپنی محفل میں بیٹھا تھا کہ اچانک کہنے لگا کہ آج میر ی نعت روضۂ اطہر پر پڑھی جا رہی ہے ۔ لوگوں نے پوچھا : کیسے محسوس ہوا ؟ ہندو نے جواب دیا کہ میری نظر واپس آرہی ہے ، جب نعت پوری ہوئی تو نظر بھی پوری واپس آگئی ۔ اس نعت کا ایک شعر یہ ہے ـ:

تجھ کو ناز ہے جنت پہ اے رضوان !

کیا چیز ہے وہ روضۂ اطہر کے سامنے

بندہ نے اس ہندو شاعر کی مکمل نعت شریف کی جستجو کی ‘ جو مل گئی ۔شاعر کا اصل نام اثیم داس ہے اورمکمل اشعار یہ ہیں:  ؎

پھیکا ہے نورِ خُر ‘رخِ انور کے سامنے
ہے ہیچ مشک‘ زلفِ معطر کے سامنے

خجلت سے آب آب ہیں نسرین و یاسمین
کیا منہ دکھائیں جا کے گلِ تر کے سامنے

ہے زنگِ معصیت سے سیاہ دل کا آئینہ
کیا اس کو لے کے جائوں سکندر کے سامنے

قسمت کا لکھا مٹ نہیں سکتا کسی طرح
تدبیر کیا کرے گی مقدر کے سامنے

نظرِ کرم ہو آنکھ میں آجائے روشنی
کہنا صبا یہ جا کے پیمبر کے سامنے

شیشہ نہ ہو نہ سنگ ہو‘ چشمہ ہو نور کا
اس کو لگا کے جائوں میں سرور کے سامنے

جس در سے آج تک کوئی لوٹا نہ خالی ہاتھ
دستِ طلب دراز ہے اس در کے سامنے

رضواں تجھے جو ناز ہے جنت پہ اس قدر
کیا چیز ہے وہ روضۂ اطہر کے سامنے

سر پہ ہو ان کا دستِ شفاعت اثیمؔ کے
جس دم کھڑا ہو داورِ محشر کے سامنے

-- منقول۔

Sunday, August 14, 2016

مٹی کی محبت میں

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

شاعر : افتخار عارف

Saturday, August 13, 2016

سارے جہاں سے اچھا

سارے جہاں سے اچّھا ھندوستاں ہمارا
مشکل بہت ہے لیکن جینا یہاں ہمارا 
سب بلبلیں یہ کہ کر خاموش ہو گئی ہیں
کوؤں کے شور  میں اب نغمہ کہاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا غم سے پگھل رہا ہے
معلوم ہے اسے بھی درد نہاں ہمارا
گودی میں کھیلتی ھیں  اسکی غلیظ ندیاں
گلشن ہے جن کے با عث اک کوڑا داں   ہمارا
ہندوتو نے سکھایا آپس میں بیر رکھنا
الفت کا راگ سارا ہے رائیگاں ہمارا
ہم بے وفا ہی سمجھے جاتے رہے ہیں ابتک
سو بار لے چکے ہیں یہ امتحاں ہمارا

ہر پیڑ پر ہیں الّو قبضہ جمائے بیٹھے 
کس شاخ پر بنے گا اب آشیاں ہمارا

عصمت دری،گھٹالے،غارتگری ہے ہر سو 
ہے مضحکہ اڑاتا سارا جہاں ہمارا
جنّت  نما چمن پر کیونکر خزاں نہ  آ یے
اک بلبلوں کا قاتل ہے  باغباں ہمارا

دہشت گری کا ہم پر الزام آرہا ہے
اب تو وجود تک ہے انکو گراں ہمارا

ہم کو مٹانے والے سب مٹ گئے جہاں سے
ابتک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
اقبال آج ہوتے تو  آہ آہ کرکے
کہتے بدل گیا ہے ہندوستاں ہمارا....

Monday, August 1, 2016

اعلی حضرت کی چہار زبانی نعت

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے چار زبانوں عربی فارسی اُردو ہندی میں یہ نعت لکھی جس کی مثال نہیں ملتی۔*

لَم یَاتِ نَظیرُکَ فِی نَظَر مثل تو نہ شد پید جانا

جگ راج کو تاج تورے سر سوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

*ترجمہ
آپ کی مثل کسی آنکھ نے نہیں دیکھا نہ ہی آپ جیسا کوئی پیدا ہوا
سارے جہان کا تاج آپ کے سر پر سجا ہے اور آپ ہی دونوں جہانوں کے سردار ہیں

اَلبحرُ عَلاَوالموَجُ طغےٰ من بیکس و طوفاں ہوشربا

منجدہار میں ہوں بگڑی ہے ہواموری نیا پار لگا جانا

* ترجمہ
دریا کا پانی اونچا ہے اور موجیں سرکشی پر ہیں میں بے سروسامان ہوں اور طوفان ہوش اُڑانے والا ہے
بھنورمیں پھنس گیا ہوں ہوا بھی مخلالف سمت ہے آپ میری کشتی کو پار لگا دیں

یَا شَمسُ نَظَرتِ اِلیٰ لیَلیِ چو بطیبہ رسی عرضے بکنی

توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا

* ترجمہ
اے سورج میری اندھیری رات کو دیکھ تو جب طیبہ پہنچے تو میری عرض پیش کرنا
کہ آپ کی روشنی سے سارا جہان منور ہو گیا مگر میری شب ختم ہو کر دن نہ بنی

لَکَ بَدر فِی الوجہِ الاجَمل خط ہالہ مہ زلف ابر اجل

تورے چندن چندر پروکنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا
*ترجمہ
آپ کا چہرہ چودھویں کے چاند سے بڑھ کر ہےآپ کی زلف گویا چاند کے گرد ہالہ (پوش)ہے
آپ کے صندل جیسے چہرہ پر زلف کا بادل ہے اب رحمت کی بارش برسا ہی دیں

انا فِی عَطَش وّسَخَاک اَتَم اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرم

برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا

ترجمہ
میں پیاسا ہوں اور آپ کی سخاوت کامل ہے،اے زلف پاک اے رحمت کے بادل
برسنے والی بارش کی ہلکی ہلکی دو بوندیں مجھ پر بھی گرا جا

یَا قاَفِلَتیِ زِیدَی اَجَلَک رحمے برحسرت تشنہ لبک

مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا

*ترجمہ*
اے قافلہ والوں اپنے ٹھہرنے کی مدت زیادہ کرو میں ابھی حسرت زدہ پیاسا ہوں
میرا دل طیبہ سے جانے کی صدا سن کر گھبرا کر تیز تیز ڈھڑک رہا ہے

وَاھا لسُویعات ذَھَبت آں عہد حضور بار گہت

جب یاد آوت موہے کر نہ پرت دردا وہ مدینہ کا جانا

ترجمہ
افسوس آپ کی بارگاہ میں حضوری کی گھڑیاں تیزی سے گزر گئی
مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے جب میں سفر کی تکالیف کی پرواہ کئے بغیر مدنیہ آ رہا تھا

اَلقلبُ شَح وّالھمُّ شجوُں دل زار چناں جاں زیر چنوں

پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مورا کون ہے تیرے سوا جانا

ترجمہ
دل زخمی اور پریشانیاں اندازے سے زیادہ ہیں،دل فریادی اور چاں کمزور ہے
میراے آقا میں اپنی پریشانیاں کس سے کہوں میری جان آپ کے سوا کون ہے جو میری سنے

اَلروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عسقا

مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا

ترجمہ
میری جان آپ پر فدا ہے،عشق کی چنگاری سے مزید بڑھا دیں
میرا جسم دل اور سامان سب کچھ نچھاور ہو گیا اب اس جان کو بھی جلا دیں

بس خامہ خام نوائے رضا نہ یہ طرز میری نہ یہ رنگ مرا

ارشاد احبا ناطق تھا ناچار اس راہ پڑا جانا

ترجمہ
رضا کی شاعری نا تجربہ کاراور قلم کمزور ہے ، میرا طور طریقہ اور انداز ایسا نہیں ہے
دوستوں کے اصرار پر میں نے اس طرح کی راہ اختیار کی یعنی چار زبانوں میں شاعری کی۔