پسندیدہ اشعار
Sunday, August 21, 2022
عدم کے جانے والو! بزمِ جاناں تک اگر پہنچو
Wednesday, May 31, 2017
دیوبند کا خمیر
ایک شاعر کی "شہر دیوبند " پر تنقید اور مولانا عامر عثمانی رحمہ اللہ کا جواب !
تنقید :
دغا کی دال ہے ۔ یاجوج کی ہے ”یا“ اس میں
وطن فروشی کا ”واؤ“ بدی کی “ب“ اس میں
جو ان کے ”نون“ میں نار جحیم غلطاں ہے
تو اس کی ”دال“ سے دہقانیت نمایاں ہے
ملے یہ حرف تو بے چارہ دیوبند بنا
برے خمیر سے یہ شہر ناپسند بن
------------------------
جواب :
دعا کی ’’دال‘‘ کو کہتے ہو تم دغا کی ہے
علاج چشم کراؤ بڑی خطا کی ہے
یہ ’’دال‘‘ دولت دنیا و دیں سے ہے معمور
دماغ و دیدۂ دل اس سے ہو گئے پرنور
غضب ہے ’’یا‘‘ تمہیں یاجوج کی نظر آئی
ضرور ڈوب گئی ہے تمہاری بینائی
نظر جماؤ کہ یاد خدا کی ’’یا‘‘ ہے یہ
یقین و یثرب و یمن و صفا کی ’’یا‘‘ ہے یہ
کہا جو ’’واو‘‘ کو تم نے ’’وطن فروشی‘‘ کا
ثبوت دے دیا اپنی گناہ کوشی کا
ادب کرو کہ وضو کا وفا کا ’’واؤ‘‘ ہے یہ
وقار و وعظ و وصال خدا کا ’’واؤ‘‘ ہے یہ
بدی کی ’’با‘‘ جسے کہتے ہو تم شرارت سے
وہ ہے بہشت بریں برکت و بہار کی ’’بے‘‘
جو تم نے ’’نون‘‘ میں نار جحیم ہی دیکھی
تو کیا قصور، تمہاری تو عاقبت ہے یہی
سنو کہ ’’نون‘‘ ہے ’’نزہت و نفاست‘‘ کا
نماز و نعت کا نیکی کا نور و نعمت کا
جو تم نے ’’دال‘‘ میں دہقانیت کی بو سونگھی
تو سمجھو اپنی غلاظت ہی ہو بہو سونگھی
ارے یہ ’’دال‘‘ دیانت کی دوستی کی ہے
درود کی ہے دوا کی ہے دل کشی کی ہے
بڑے پاک عناصر سے دیوبند بنا
عدو کی جان جلی شہر دل پسند بنا
(تجلی خاص نمبر۔ فروری و مارچ ۵۷ء)
Sunday, May 14, 2017
قصہ علامہ اقبال کی ایک رباعی کا
قصہ علامہ اقبال کی ایک رباعی کا
ایک صدی سے زائد کا عرصہ ہوا۔ ڈیرہ غازی خان کے ترین قبیلے سے تعلق رکھنے والے اللہ داد خان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ اس کا نام محمد رمضان رکھا گیا۔ رمضان ہونہار طالب علم نکلا۔ بی۔ اے کے بعد بی ۔ ٹی کا امتحان پاس کیا اور بطور انگلش ٹیچر سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ طبیعت میں فقیرانہ استغنا بھی تھا اور صوفیانہ بے نیازی بھی ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے اور سرکار انگلیسیہ کا ملازم ہونے کے باوجود کبھی دیسی لباس ترک نہ کیا۔ چہرہ سنت رسول سے سجا تھا ہمیشہ ہاتھ میں ایک موٹی سوٹی اور کندھے پر بڑا سا تولیہ ڈالے رکھتے۔ فارسی اور اردو کے شعر کہتے ۔ علامہ اقبال کے عشاق میں سے تھے۔ انکے کئی اشعار پہ تضمین کہی جو علامہ نے بہت پسند کی۔ ایک نوجوان، عطا محمد جسکانی سے گہرے لگاؤ کے باعث عطائی تخلص اختیار کیا اور محمد رمضان عطائی کہلانے لگے۔
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب عطائی ڈیرہ غازی خان کے گورنمنٹ اسکول میں تعینات تھے۔ انہی دنوں ان کے قریبی شناسا مولانا محمد ابراہیم ناگی بھی ڈیرہ غازی خان کے سب جج تھے۔ ابراہیم ناگی ایک درویش منش اور صاحب علم شخصیت تھے۔ مولانا ابراہیم کو علامہ اقبال سے ملاقاتوں کا اعزاز بھی حاصل تھا۔
ایک دن مولانا ابراہیم لاہور گئے علامہ سے ملاقات ہوئی۔ واپس آئے تو سر شام معمول کی محفل جمی۔ علامہ سے ملاقات کا ذکر چلا تو عطائی کا جنوں سلگنے لگا۔ مولانا نے جیب سے کاغذ کا ایک پرزہ نکال کر عطائی کو دکھایا۔ یہ علامہ کی اپنی تحریر تھی۔ مولانا کہنے لگے۔ لو عطائی ! علامہ صاحب کی تازہ رباعی سنو۔ پھر وہ ایک عجب پر کیف انداز میں پڑھنے لگے۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہ مصطفےٰ پنہاں بگیر
مولانا کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے لیکن محمد رمضان عطائی کی کیفیت روتے روتے دگرگوں ہو گئی۔ اسی عالم وجد میں فرش پر گرے۔ چوٹ آئی اور بے ہوش ہوگئے۔ رباعی ان کے دل پر نقش ہو کے رہ گئی۔ اٹھتے بیٹھتے گنگناتے اور روتے رہے انہی دنوں حج پر گئے۔ خود اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ جب حجاج اوراد و وظائف میں مصروف ہوتے تو وہ زار و قطار روتے اور علامہ کی رباعی پڑھتے رہتے۔
حج سے واپسی پر دل میں ایک عجب آرزو کی کونپل پھوٹی۔ ”کاش یہ رباعی میری ہوتی یا مجھے مل جاتی“ یہ خیال آتے ہی علامہ اقبال کے نام ایک خط لکھا“ آپ سر ہیں فقیر بے سر۔ آپ اقبال ہیں، فقیر مجسم ادبار۔ لیکن طبع کسی صورت کم نہیں پائی“ انہوں نے علامہ کے اشعار کی تضمین اور اپنے فارسی اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ”فقیر کی تمنا ہے کہ فقیر کا تمام دیوان لے لیں اور یہ رباعی مجھے عطا فرما دیں۔“ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ انہیں علامہ کی طرف سے ایک مختصر سا خط موصول ہوا۔ لکھا تھا:
جناب محمد رمضان صاحب عطائی۔ سینئر انگلش ماسٹر۔ گورنمنٹ ہائی اسکول ڈیرہ غازی خان۔
لاہور : 19/ فروری 1937
جناب من: میں ایک مدت سے صاحب فراش ہوں خط و کتابت سے معذور ہوں باقی، شعر کسی کی ملکیت نہیں آپ بلا تکلف وہ رباعی، جو آپ کو پسند آگئی ہے اپنے نام سے مشہور کریں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
فقط : محمد اقبال ۔ لاہور
علامہ نے یہ رباعی اپنی نئی کتاب ”ارمغان حجاز“ کے لیے منتخب کر رکھی تھی۔ عطائی کی نذر کر دینے کے بعد انہوں نے اسے کتاب سے خارج کر کے، تقریباً اسی مفہوم کی حامل ایک نئی رباعی کہی جو ”ارمغان حجاز“ میں شامل ہے۔
بہ پایاں چوں رسد ایں عالم پیر
شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر
مکن رسوا حضور خواجہ ما را
حساب من زچشم او نہاں گیر
(اے میرے رب! روز قیامت) یہ جہان پیر اپنے انجام کو پہنچ جائے اور ہر پوشیدہ تقدیر ظاہر ہو جائے تو اس دن مجھے میرے آقا و مولا کے حضور رسوا نہ کرنا اور میرا نامہ اعمال آپ کی نگاہوں سے چھپا رکھنا)
ایم اے فارسی کا امتحان دینے لاہور گئے تو عطائی، شکریہ ادا کرنے علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہمراہ جانے والے چوہدری فضل داد نے تعارف کراتے ہوئے کہا ”یہ بوڑھا طوطا ایم اے فارسی کا امتحان دینے آیا ہے“ علامہ ایک کھری جھلنگا چار پائی پر احرام نما سفید چادر اوڑھے لیٹے تھے۔ بولے۔ ”عاشق کبھی بوڑھا نہیں ہوتا“ رباعی کا ذکر چل نکلا۔ عطائی نے جذب و کیف سے پڑھنا شروع کیا۔ توغنی از ہر دو عالم“ علامہ کی آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے۔ اتنا روئے، اتنا روئے کہ سفید چادر کے پلو بھیگ گئے۔
آخری ملاقات علامہ کے انتقال سے کوئی چار ماہ قبل دسمبر 1937 میں ہوئی۔ انہوں نے علامہ سے کہا ”سنا ہے جناب کو دربار نبوی سے بلاوا آیا ہے“ علامہ آبدیدہ ہو گئے ۔ آواز بھرا گئی۔ بولے ”ہاں ! بے شک لیکن جانا نہ جانا یکساں ہے، آنکھوں میں موتیا اتر آیا ہے، یار کے دیدار کا لطف دیدہ طلبگار کے بغیر کہاں۔“ عطائی نے کہا ”جانا ہو تو دربار نبوی میں وہ رباعی ضرور پیش فرمائیے گا۔ جو اب میری ہے“ علامہ زار و قطار رونے لگے۔ سنبھلے تو کہا ”عطائی ! اس رباعی کو بہت پڑھا کرو۔ ممکن ہے خداوند کریم مجھے اس کے طفیل بخش دے“۔
1938 میں علامہ انتقال فرما گئے۔ عرصہ بعد شاہی مسجد کے احاطے میں ان کے مزار کی تعمیر شروع ہوئی تو ہر ہفتے اور اتوار کو ایک مجذوب شخص لاٹھی تھامے مسجد کی سیڑھیوں پر آبیٹھتا اور شام تک موجود رہتا۔ وہ زیر تعمیر مزار پہ نظریں گاڑے ٹک ٹک دیکھتا رہتا۔ کبھی یکایک زاری شروع کر دیتا۔ کبھی طواف کے انداز میں مزار کے چکر کاٹنے لگتا۔ اس کا نام محمد رمضان عطائی تھا۔
مولانا محمد ابراہیم ناگی کبھی کبھی کہا کرتے ”ظالم عطائی! کان کنی تو میں نے کی اور گوہر تو اڑا لے گیا۔ بخدا اگر مجھے یہ علم ہوتا کہ حضرت غریب نواز (علامہ اقبال) اتنی فیاضی کریں گے تو میں اپنی تمام جائیداد دے کر یہ رباعی حاصل کر لیتا اور مرتے وقت اپنی پیشانی پر لکھوا جاتا“۔
محمد رمضان عطائی، سینئر انگلش ٹیچر 1968 میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ انہوں نے اپنی وصیت میں لکھا۔ ”میرے مرنے پر اگر کوئی وارث موجود ہو تو رباعی مذکور میرے ماتھے پہ لکھ دینا اور میرے چہرے کو سیاہ کر دینا۔“ مجھے معلوم نہیں کہ پس مرگ ان کے کسی وارث نے اس عاشق رسول کی پیشانی پہ وہ رباعی لکھی یا نہیں لیکن ڈیرہ غازی خان کے قدیم قبرستان ”ملا قائد شاہ“ میں کوئی بیالیس برس پرانی ایک قبر کے سرہانے نصب لوح مزار پر کندہ ہے۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہ مصطفےٰ پنہاں بگیر
اے اللہ ! تو دوجہانوں کو عطا کرنے والا ہے جبکہ میں تیرا منگتا و فقیر ہوں، روزِ محشر میری معذرت کو پذیرائی بخش کر قبول فرمانا (اور مجھے بخش دینا) اگر (پھر بھی) میرے نامہ اعمال کا حساب نا گزیر ہوتو پھر اے میرے مولیٰ ! اسے میرے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنا۔
(کیونکہ میں ایک گنہگار امتی کی حیثیت سے اپنے آقا کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا)
Thursday, January 12, 2017
چند رباعیات
مسجد میں تو شیخ کو خروشاں دیکھا
میخانہ میں جوشِ بادہ نوشاں دیکھا
یک گوشۂ عافیت جہاں میں ہم نے
دیکھا سو محلّۂ خموشاں دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بندوں کو ضرور اپنے صلہ دیتا ہے
دیتا ہے، طلَب سے بھی سوا دیتا ہے
تُو مانگنے والوں کی طرح مانگ کے دیکھ
ہر مانگنے والے کو خدا دیتا ہے
(نثار اکبر آبادی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھا جوش و خروش اتّفاقی ساقی
اب زندہ دِلی کہاں ہے باقی ساقی
میخانے نے رنگ روپ بدلا ایسا
میکش میکش رہا، نہ ساقی ساقی
(ابوالکلام آزاد)
Monday, December 19, 2016
تمام والدین اور بچوں کے لئے
تمام والدین اور بچوں کے لئے .
یہ کچھ ضروری باتوں کی فہرست ہے. جو تمام والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو بتائیں اور سکھائیں
1. ہمیشہ لڑکیوں کو خبردار کریں کہ وہ کسی بھی مرد کی گود میں نہ بیٹھیں. چاہے وہ رشتے میں کچھ بھی لگتا ہو.
2 . دو سال کی عمر سے بچوں کو سکھائیں کہ وہ کسی کے سامنے لباس نہ بدلیں. خاص طور پر لڑکیوں کو ہمیشہ اس بات پر سختی سے عمل کرنا چاہیے.
3. کسی کو بھی ہرگز یہ اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کے بچوں کو "میری بیوی، میرا شوہر، میری بہو، میرا داماد" کہہ کر تعرف کروانے. جیسا کہ آجکل اکثر فیملی بچوں کی پیدائش کے بعد ہی ان کہ رشتوں کی خواہش ظاہر کی جاتی ہے کہ فلاں کو میں اپنی بہو بناؤں گی یا فلاں کو میں اپنی بیٹی دوں گی.
4 . جب بھی آپ کے بچے باہر کھیلنے جائیں یا دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلیں تو ان پر نظر رکھیں کہ وہ کس طرح کے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں اور کس قسم کا کھیل کھیلتے ہیں. کیونکہ آجکل بچے جنسی طور پر ہراساں کیے جاتے ہیں.
5. کبھی بھی اپنے بچوں کو کسی بالغ کے پاس جانے پر مجبور نہ کریں اگر وہ نہ جانا چاہیں تو. اس بات کا سختی سے خیال رکھیں کہ کہیں آپ کا بیٹا یا بیٹی کسی بھی بالغ مرد یا عورت کے ساتھ زیادہ قریب تو نہیں یا اس کے پاس جانے کے لئے ضد تو نہیں کرتے.
6 . اگر آپکا بچہ جو ہمیشہ ہنستا مسکراتا اور خوش رہے لیکن اچانک چپ لگ جانے اور گم سم رہنے لگے تو اس سے بہت سارے سوالات پوچھیں اور پوری طرح سے بات کی تصدیق کریں. ہو سکتا ہے کسی نے اسے ہراساں کیا ہو.
7. . اس بات کا ہمیشہ خاص خیال رکھیں کہ جب بھی آپ بچوں کے لئے کوئی فلم یا کارٹون لاتے ہیں تو پہلے اسے خود دیکھ کر چیک کر لیں کہ کہیں اس میں کوئی جنسی مواد نہ ہو جو بچوں کے ذہن پر اثر کرے.
8.. اپنے جوان ہوتے ہوے بچوں کو بہت ہی احتیاط سے سیکس کے بارے میں تعلیم دیں اور اچھائی برائی میں فرق کرنا سکھائیں. ورنہ معاشرہ ان کو غلط اقدار سکھا دے گا اور وہ اچھائی برائی میں فرق کرنا بھول جائیں گے.
9. اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے گھر میں کیبل نیٹ ورک پر پیرینٹل کنٹرول ایکٹو ہے اور کوئی بھی سیکسی یا رومانٹک پروگرام نہ چل سکے جس سے بچوں کے ذہن پر اثر پڑے اور اپنے ان دوستوں اور رشتےداروں کو بھی خبردار کریں اس بات سے جہاں آپ کے بچے اکثر جاتے ہیں.
10. اپنے تین سال کے بچوں کو اچھی طرح سے سمجھا دیں کہ کس طرح اپنی شرمگاہ کو مناسب طریقے سے دھونا ہے. ان کو سختی سے خبردار کریں کہ وہ اپنی شرمگاہ کو اور اپنے جسم کے کن حصوں کو چھپا کر رکھیں اور کبھی کسی کو چھونے مت دیں. اور اس بات پر سب سے آپ خود عمل کرنا شروع کریں.
11. کسی بھی قسم کی ایسی چیزیں یا ایسے لوگ جن سے آپ کے بچوں کو کوئی ڈر یا خوف محسوس ہوتا ہو یا ان کے ساتھ بچوں کا دل مطمئن نہ ہوتا ہو تو ایسی تمام چیزوں اور ایسے تمام لوگوں سے ہمیشہ کے لئے تعلق ختم کر دیں. ایسی چیزوں میں کوئی گانے ڈرامے فلم یا کارٹون ہو سکتے ہیں اور ایسے لوگوں میں آپ کے کوئی دوست یا رشتےدار بھی ہو سکتے ہیں.
12. اگر ایک بار بھی آپ کے بچے کو کسی خاص شخص سے کوئی شکایت ہے تو اس پر چپ مت رہیں. کیس اپنے ہاتھ میں لیں اور اس کی شکایت پر ایکشن لیں تا کہ اسے یقین ہو کے اس کا دفاع بہت اچھا کر سکتے ہیں.
13. اپنے بچوں کو لوگوں کے رش اور بھیڑ سے دور رہ کر اقدار کو سمجھنے دیں. ان کو کبھی بھی زبردستی لوگوں میں ملوث مت کریں.
ہم والدین ہیں یا ہونے جا رہے ہیں.
لیکن یاد رکھیں کہ "درد زندگی بھر رہتا ہے"
Sunday, October 9, 2016
ہارون رشید کی دو کنیزیں ۔
ہارون الرشید کو ایک لونڈی کی ضرورت تهی، اس نے اعلان کیا کہ مجهے ایک لونڈی درکار ہے،اس کا یه اعلان سن کر اس کے پاس دو لونڈیاں آئیں اور کہنے لگیں ہمیں خرید لیجیے! ان دونوں میں سے ایک کا رنگ کالا تها ایک کا گورا.
هارون الرشید نے کہا مجهے ایک لونڈی چاهیے دو نہیں.
گوری بولی تو پهر مجهے خرید لیجیے حضور! کیونکہ گورا رنگ اچها ہوتا ہے...
کالی بولی حضور رنگ تو کالا ہی اچها ہوتا هے آپ مجهے خریدیے.
ہارون الرشید نے ان کی یہ گفتگو سنی تو کہا. اچها تم دونوں اس موضوع پر مناظرہ کرو کہ رنگ گورا اچها ہے یا کالا؟
جو جیت جائے گی میں اسے خرید لونگا..
دونوں نے کہا بہت اچها! چنانچہ دونوں کا مناظرہ شروع ہوا
اور کمال یہ ہوا کہ دونوں نے اپنے رنگ کے فضائل و دلائل عربی زبان میں فی البدیہ شعروں میں بیان کیے. یہ اشعار عربی زبان میں هیں مگر مصنف نے ان کا اردو زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے، لیجئے آپ بهی پڑهئے اور غور کیجئے کہ پہلے زمانے میں لونڈیاں بهی کس قدر فہم و فراست کی مالک ہوا کرتی تهیں
گوری بولی:
''موتی سفید ہے اور قیمت ہے اس کی لاکهوں،
اور کوئلہ ہے کالا پیسوں میں ڈهیر پالے''
(بادشاہ سلامت ! موتی سفید ہوتا ہے، اور کس قدر قیمتی هوتا ہے، اور کوئلہ جو کہ کالا ہوتا ہے کس قدر سستا ہوتا ہے کہ چند پیسوں میں ڈهیر مل جاتا ہے)
اور سنیے؛
''اللہ کے نیک بندوں کا منہ سفید ہوگا،
اور دوزخی جو ہونگے،منہ ان کے هونگے کالے''
بادشاه سلامت اب آپ ہی انصاف کیجیے گا کہ رنگ گورا اچها ہے یا نہیں؟
بادشاہ ''گوری'' کے یہ اشعار سن کر بڑا خوش ہوا
اور پهر کالی سے مخا طب ہوکر کہنے لگا. سنا تم نے؟؟ اب بتاو کیاکہتی ہو؟؟
کالی بولی حضور!
''ہےمشک نافہ کالی قیمت میں بیش عالی،
ہے روئی سفید اور پیسوں میں ڈهیر پالی''
(کستوری کالی ہوتی ہے، مگر بڑی گراں قدر اور بیش قیمت مگر روئی جع کہ سفید ہوتی ہے، بڑی سستی مل جاتی ہے اور چند پیسوں میں ڈهیر مل جاتی ہے)
اور سنیے؛
''آنکهوں کی پتلی کالی ہے نور کا وہ چشمہ،
اور آنکهہ کی سفیدی ہے نور سے وہ خالی''
بادشاه سلامت اب آپ ہی انصاف کیجیے کہ رنگ کالا اچها ہے یا نہیں؟؟ کالی کے یہ اشعار سن کر بادشاہ اور بهی زیادہ خوش ہوا اور پهر گوری کی طرف دیکها تو فورا بولی:
''کاغذ سفید ہیں سب قرآن پاک والے''
کالی نے جهٹ جواب دیا:
''اور ان پہ جو لکهے ہیں قرآں کے حرف کالے''
گوری نے پهر کہا کہ:
''میلاد کا جو دن ہے روشن وہ بالیقیں ہے''
کالی نے جهٹ جواب دیا کہ:
''معراج کی جو شب هے کالی هے یا نہیں ہے؟؟''
گوری بولی کہ:
''انصاف کیجیے گا، کچهہ سوچیے گا پیارے!
سورج سفید روشن، تارے سفید سارے''
کالی نے جواب دیا کہ:
''ہاں سوچیے گا آقا! ہیں آپ عقل والے،
کالا غلاف کعبہ، حضرت بلال کالے''
گوری کہنے لگی کہ
''رخ مصطفے ہے روشن دانتوں میں ہے اجالا''
کالی نے جواب دیا
''اور زلف ان کی کالی کملی کا رنگ کالا''
بادشاہ نے ان دونوں کے یہ علمی اشعار سن کر کہا. کہ مجهے لونڈی تو ایک درکار تهی مگر میں تم دونوں ہی کو خرید لیتا ہوں.
Monday, August 29, 2016
انٹرنیٹ اور عاشق
نیٹ ایجاد ہوا ہجر کے ماروں کے لیے
سرچ انجن ہے بڑی چیز کنواروں کے لیے
جس کو صدمہ شبِ تنہائی کے ایام کا ہے
ایسے عاشق کے لیے نیٹ بہت کام کا ہے
نیٹ فرہاد کو شیریں سے ملا دیتا ہے
عشق انسان کو گوگل پہ بٹھا دیتا ہے
ٹیکسٹ میں لوگ محبت کی خطا بھیجتے ہیں
گھر بتاتے نہیں آفس کا پتہ بھیجتے ہیں
عاشقوں کا یہ نیا طور نیا ٹائپ ہے
پہلے چلمن ہوا کرتی تھی اب اسکائپ ہے
عشق کہتے ہیں جسے اک نیا سمجھوتا ہے
پہلے دل ملتے تھے اب نام کلک ہوتا ہے
دل کا پیغام جب ای میل سے مل جاتا ہے
میل ہر چوک پہ فی میل سے مل جاتا ہے
عشق کا نام فقط آہ و فغاں تھا پہلے
ڈاک خانے میں یہ آرام کہاں تھا پہلے
آئی ڈی جب سے ملی ہے مجھے ہمسائی کی
اچھی لگتی ہے طوالت شبِ تنہائی کی
فیس بک کوچۂ جاناں سے ہے ملتی جلتی
ہر حسینہ یہاں مل جائے گی ہلتی جلتی
یہ موبائل کسی عاشق نے بنایا ہو گا
اس کو محبوب کے ابا نے ستایا ہو گا
ٹیکسٹ جب عاشقِ برقی کا اٹک جاتا ہے
طالبِ شوق تو سولی پہ لٹک جاتا ہے
آن لائن ترے عاشق کا یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی