Wednesday, May 31, 2017

دیوبند کا خمیر

ایک شاعر کی "شہر دیوبند " پر تنقید اور مولانا عامر عثمانی رحمہ اللہ کا جواب !

تنقید :
دغا کی دال ہے ۔ یاجوج کی ہے ”یا“ اس میں
وطن فروشی کا ”واؤ“ بدی کی “ب“ اس میں
جو ان کے ”نون“ میں نار جحیم غلطاں ہے
تو اس کی ”دال“ سے دہقانیت نمایاں ہے
ملے یہ حرف تو بے چارہ دیوبند بنا
برے خمیر سے یہ شہر ناپسند بن
------------------------
جواب :
دعا کی ’’دال‘‘ کو کہتے ہو تم دغا کی ہے
علاج چشم کراؤ بڑی خطا کی ہے
یہ ’’دال‘‘ دولت دنیا و دیں سے ہے معمور
دماغ و دیدۂ دل اس سے ہو گئے پرنور
غضب ہے ’’یا‘‘ تمہیں یاجوج کی نظر آئی
ضرور ڈوب گئی ہے تمہاری بینائی
نظر جماؤ کہ یاد خدا کی ’’یا‘‘ ہے یہ
یقین و یثرب و یمن و صفا کی ’’یا‘‘ ہے یہ
کہا جو ’’واو‘‘ کو تم نے ’’وطن فروشی‘‘ کا
ثبوت دے دیا اپنی گناہ کوشی کا
ادب کرو کہ وضو کا وفا کا ’’واؤ‘‘ ہے یہ
وقار و وعظ و وصال خدا کا ’’واؤ‘‘ ہے یہ
بدی کی ’’با‘‘ جسے کہتے ہو تم شرارت سے
وہ ہے بہشت بریں برکت و بہار کی ’’بے‘‘
جو تم نے ’’نون‘‘ میں نار جحیم ہی دیکھی
تو کیا قصور، تمہاری تو عاقبت ہے یہی
سنو کہ ’’نون‘‘ ہے ’’نزہت و نفاست‘‘ کا
نماز و نعت کا نیکی کا نور و نعمت کا
جو تم نے ’’دال‘‘ میں دہقانیت کی بو سونگھی
تو سمجھو اپنی غلاظت ہی ہو بہو سونگھی
ارے یہ ’’دال‘‘ دیانت کی دوستی کی ہے
درود کی ہے دوا کی ہے دل کشی کی ہے
بڑے پاک عناصر سے دیوبند بنا
عدو کی جان جلی شہر دل پسند بنا

(تجلی خاص نمبر۔ فروری و مارچ ۵۷ء)

No comments: